پچھلے سال تین نومبر کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگا دی جسے منی مارشل لا کا نام دیا گیا۔ اس ایمرجنسی میں جنرل مشرف نے ناپسندیدہ ججوں کو گھر بھیج دیا اور میڈیا پر بھی پابندیاں لگا دیں۔ وقت گزرا، جنرل مشرف کو نہ چاہتے ہوئے بھی گمنامی میں جانا پڑا اور ان کے اس اقدام کو غلط قرار دینے والے اقتدار میں آگئے۔

تب سے جن ججوں نے جنرل مشرف کے منی مارشل لا کے تحت دوبارہ حلف لینے سے انکار کر دیا تھا ان کی اکثریت نے اسی قانون کے تحت دوبارہ حلف اٹھا کر ڈکٹیٹر کے کالے قوانین کی طرح اپنے منہ کالے کر لیے۔

جن لوگوں نے چیف جسٹس کے گھر پاکستان کا پرچم لہرانے کا وعدہ کیا وہ بدعہد نکلے اور چیف کو ابھی تک بحال نہیں کر سکے

جن لوگوں نے عدلیہ کی آزادی کے نعرے پر انتخابات لڑے وہ بھی اس نعرے کو بھول کر موجودہ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں

جو لوگ جنرل مشرف کے ناجائز لامحدود اختیارات کا رونا روتے رہے وہ اب انہی اختیارات کے ساتھ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں

جن لوگوں نے جنرل مشرف کے بنائے صدارتی اختیارات کو وزیراعظم کو منتقل کر کے اصلی پارلیمانی نظام بحال کرنے کے نعرے لگائے وہ اب اسی نظام کے تحت اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی زبانوں پر تالے پڑ چکے ہیں

میڈیا کے ایک اینکر نے جنرل مشرف کے دور کو بے پناہ تنقید کا نشانہ بنا کر شہرت حاصل کی مگر وہ اسی نظام کے تسلسل کے اندر ایک اہم سرکاری عہدے کے عوض اپنی عزت و ناموس کو داؤ پر لگا چکا ہے

جن لوگوں نے ڈاکٹر قدیر کی رہائی کو نعرے کے طور پر استعمال کیا وہ اب ان کو بھول چکے ہیں

تین نومبر کو یوم سیاہ کے طور پر منانے والے عوام کسیاتھ ساتھ خود کو بھی اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں کیونکہ تین نومبر کی سیاہی ابھی تک صاف نہیں ہوئی اور یہی سیاہی موجودہ حکمرانوں کے منہ کو بھی کالا کیے ہوئے ہے۔