سننے ميں آیا ہے کہ نيب نے چيني اور پٹرول کي مہنگائي کا نوٹس ليتے ہوۓ اس معاملے کي تحقيق کا فيصلہ کيا ہے۔ يہ بھي کيا اندھير نگري ہے کہ حکومت کے کارندے ہي چيني کے کارخانوں کے مالک اور حکومت کا ادارہ ہي اس کي تحقيق پر معمور۔ اس طرح کيا ہم نيب سےانصاف کي توقع کر سکتے ہيں کبھي نہيں۔ حکومت ميں شامل پي پي پي باغي ارکان کي اپني چيني کي مليں ہيں اوراس کے ساتھ ساتھ حکومتي وزرا کي بھي چيني کي مليں ہيں اور اگر يہي چيني کي قيمت کم نہيں کرسکے تو پھر نيب سے يہ توقع رکھنا کہ وہ حکومتي عہديداروں کا احتساب کرے گا فضول ہے۔ يہ تو وہي بات ہوئي کہ خربوزوں کي رکھوالي پرگيڈڑوں کو بٹھا ديا جاۓ۔

اسي طرح پٹرول کي قيمتوں کے بارے ميں ايک سے زيادہ حکومتي عہديدار يہ بيان دے چکے ہيں کہ حکومت پٹرول کي قيمتيں کم نہيں کرے گي۔ دو دفعہ تو وزيراعظم خود کہ چکے ہيں کہ حکومت پہلے ہي خسارے ميں جارہي ہے اسلۓ پٹرول کي قيمتيں کم نہيں کرسکتي۔ اب ان حالات میں نيب کيا کرے گا۔ کيا ہم توقع کرسکتے ہيں کہ نيب وزيراعظم کا احتساب کرے گا کبھي نہيں۔

يہ ہماري حکومت کي ناداني ہے کہ اپنے تھوڑے سے منافع کے ساتھ ساتھ پٹروليم کمپنيوں کے بھي جيبيں بھر رہي ہے۔ کيا اچھا ہوتا کہ عوام کي جيبوں سے پيسہ نکالنے کي بجاۓ پٹروليم کمپنيوں کے منافع ميں حصہ دار بنتي۔ مگر يہ ہماري حکومت کے بس کي بات نہيں کہ وہ اپنے آقاؤں کے کاروبار سے حصہ مانگ سکے۔

لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا يہ نيا طريقہ ڈھونڈا ہے۔ ليکن اس دفعہ معلوم ہوتا ہےکہ سياسي جماعتوں نے مہنگائي اور کارٹونوں کے ايشو کو کيش کرنے کا تہيہ کر رکھا ہے اوراسي لۓ حکومت کيلۓ اگلے چند ماہ کافي کٹھن ہوں گے۔