چوہدري پرويز الٰہي کي والدہ کي رسمِ دعا پر تبليغي جماعت کے مولانا طارق جميل نے ايسي رقت انگيز تقرير کي کہ پتھر دل انسان بھي اسے سن کو موم ہوگيا ہوگا۔ دراصل چوہدري پرويز الٰہي کا ايک بيٹا تبليغي جماعت کا رکن ہے اور اس نے اپني زندگي صرف تبليغ کيلیے صرف کر رکھي ہے۔ اسي نےبذاتِ خود اپني دادي کي نمازِ جنازہ پڑھائي اور اسي کے مذہبي رہنما نے دعائيہ کلمات کے ساتھ حکمرانوں کو کچھ نصیحتيں بھي کيں ۔ انہوں نے پرانے حکمرانوں کے قصے بھي بيان کۓ جن ميں سب کيلۓ عبرت چھپي ہوئي تھي۔ چوہدري برادران مولانا کي تقرير کے بعد ضرور پچھتاۓ ہوں گے کہ انہوں نے انہيں تقرير کي اجازت کيوں دي۔ ہوسکتا ہے ان کے بيٹے نے مجبور کيا ہو اور وہ اپنے بيٹے کي بات نہ ٹال سکے ہوں۔ مولانا نے حکمرانوں کو ايسے ايسے واقعات سناۓ جن کو اگر وہ غور سے سنتے اور اپنے آپ کو بدل سکتے تو يہ پاکستان کيلۓ قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہوتا۔ اب چوہدري پرويز کے ديندار بيٹے کو ہي لے ليجۓ۔ مجال ہے جو اس کو وہ سياست ميں لاۓ ہوں۔ ان کا تو باقي لوگوں کي طرح يہي خيال ہوگا کہ تبليغ ميں شامل ہونے کے بعد اب ان کا يہ بيٹا سياست کے قابل نہيں رہا۔ مگر چونکہ بڑے لوگوں کي ايک سے زيادہ اولاديں ہوتي ہيں اسلۓ ايک بيٹے کے مولوي بن جانے سے انہيں کوئي خاص پچھتاوا نہيں ہوا ہوگا۔
اب ہمارے ذہن ميں دو سوال آتے ہيں۔ ايک يہ کہ ايک بيٹے کے باعمل مسلمان ہوجانے کے بعد کيا چوہدريوں کی سياست کے مکروفريب ختم ہوگۓ؟ کيا ان کا بيٹا اب تک ان کو سياسي چکروں سے چھٹکارا دلانے ميں کامياب ہوسکا؟ کيا چوہدريوں کو مولانا طارق اعظم کي تقرير کا دس فيصد بھي اثر ہوا؟ اگر چوہدريوں کے بيٹے کے تبليغ ميں شامل ہونے اور مولانا کي تقرير کے بعد چوہدري نہيں بدل سکے تو پھر مولانا کو تقرير چھوڑ ديني چاہۓ اور چوہدريوں کے بيٹے کو تبليغي جماعت۔ کيونکہ اگر آپ اپنے گھر کو نہيں بدل نہيں سکتے تو پھر دنيا کيا بدليں گے۔ اور اگر آپ کي تقرير کا ذرا برابر بھي حکمرانوں نے اثر نہيں ليا تو پھر آپ کے عمل ميں کوئي کمي ہے۔
دوسري طرف اگر چوہدري اپنے بيٹے کي دعوت پر اپنے آپ کو بدل نہيں سکے اور مولانا کي تقرير کے بعد بھي اپنے اندر کوئي تبديلي محسوس نہيں کرسکے تو پھر وہ نام کے مسلمان ہوں گے۔ کيونکہ جب آپ کو آخرت کا نام لے کر ڈرايا جاۓ اور آپ نہ ڈريں تو پھر آپ آخرت پر يقين نہيں رکھتے۔ ايسے حمکرانوں اور ان کي رعايا کيلۓ ہم صرف دعا ہي کرسکتے ہيں۔
اے خدا ہم مسلمانوں کو پہلے سچا مسلمان بنا۔ آمين
پھر ہميں سچے مسلمان حکمران عطا فرما۔ آمين
4 users commented in " کيا حکمرانوں پر بھي اثر ہوا؟ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackMolana Tariq Jameel sahab aik shola bian muqarar hain un ki taqreerain dilon main aag laga dayti hain laikin unhi dilon main jin main deene Haq ko samajhnay ki tarap ho, kion kay Allah paak nay Nabi slawat o wasalam say kahdia tha kay aiy Mohummad(salAllah o wasalam) aap ka kaam sirf pohncha dena hay hidayat dena ya na dena hamara kaam hay or hum sirf unhi ko hidayat detay hain jo is ki khowahish rakhtay hain or deen main jabr naheen hay, to agar aazar kay gher Ibraheem(Alaihissalam) paida ho saktay hain to perwaiz Elahi ko bhi Allah taala nakukar olad ata ker saktay hain laikin us ki naiki apnay baap kay kisi kaam na aay gi,yeh unhain sonch laina chahiay…..
سیّدہ مہر افشاں نے ٹھیک لکھا ہے ۔ قرآن شریف کے الفاظ تھوڑے سے مختلف ہیں مگر مطلب یہی بنتا ہے ۔ دوسرے کسی بھی مرد کی ذمہ داری اُس کے بیوی بچے ہوتے ہیں ۔ والدین تک پیغام پہنچانا ہوتا ہے سو سمجھدار بیٹے نے احسن طریقہ سے پہنچا دیا ۔ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی کی بے نیازی دیکھئے کہ فرعون کے گھر میں موسٰی پیدا کرتا ہے ۔
Ajmal sahab Jazak Allah
مان گئے بھئی! تم تو صرف دعا کر رہے ہو اور جو ماحول کو سدھارنے کی کوشش کر ریے ہیں ان پہ انگلی اٹھا رہے ہو۔ کچھ مدد تم بھی کرتے۔ ویسے بھی لوگوں کو سمجھانا ہمارے ذمہ ہے۔ باقی ہدایت تو الللہ ہی دے گا- اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازئ- آمین
Leave A Reply