جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لیا تو اس وقت ہم نے اپنے بلاگ پر مندرجہ ذیل سروے رکھا۔
اس کے مطابق ہماری اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب تک قرض کو صحیح جگہ پر استعمال کر کے اس کی آمدنی سے اس کا سود ادا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی قرض ہمیشہ کیلیے عوام کا درد سر بنا رہے گا۔ اب یہی ہو رہا ہے، ہم نے آئی ایم ایف کے قرض سے نہ تو کوئی صنعت لگائی ہے اور نہ ہی کوئی کاروبار شروع کیا ہے بلکہ اس سے ہم حکومت کے اور اپنے اخراجات چلا رہے ہیں۔ ہماری اکثریت کا یہی خیال ہو گا کہ اگر قرض سے اخراجات چلانے ہیں تو پھر قرض کی رقم جلد ختم ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف نے اپنے اصل ذر اور سود کی وصولی کامیاب بنانے کیلیے سب سے آسان راستہ چن رکھا ہے اور وہ ہے عوام سے ٹیکس وصول کرنا۔ یہ ٹیکس ان کی روزمرہ کی خریداری پر بھی ہوتا ہے اور توانائی کے ذرائع پر بھی۔ یہ آئی ایم کا کام نہیں کہ وہ ہمیں مجبور کرے کہ ہم اس کے قرضے کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کریں۔ یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس قرض کو انتظامی کاموں کی بجائے ترقیاتی کاموں پر لگا کر سود کی لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کر لیں۔
لگتا تو یہی ہے کہ پاکستان ہمیشہ کیلیے آئی ایم ایف کے قرض تلے دبا رہے گا اور صرف اس کا سود ادا کرتا رہے گا۔ اب یہ سود جب عوام کی جیب سے جائے گا اور لوگوں کو تنخواہیں بھی اس سودی رقم سے ادا کی جائیں گی تو پھر ہماری مسلمانی تو گئی بھاڑ میں۔ جب ہم اجتماعی طور پر سود کی لعنت کا شکار ہیں اور ہمارا رواں رواں سودی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو پھر سود کے حلال اور حرام ہونے کی بحث ہم کس منہ سے کریں۔ جب ہم بطور قوم ہی سود پر قرض لیکر زندگی بسر کر رہے ہیں تو پھر ہم میں اور ان میں جو گاڑی قسطوں پر لیتے ہیں یا گھر مورٹگیج پر خریدتے ہیں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
9 users commented in " آئی ایم ایف اور پاکستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپکی بات ٹھیک ہے، ملک چاہے سو سال ایسے ہی قرض لیتا رہے فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت ٹھیک ہو جائے، لوگ خود بخود اپنا پیسہ پیش کر دینگے۔ اب نئے ہیلی کاپٹروں اور گاڑیوں کی خریداری کا آپ نے سنا ہو گا۔ اب لوگ ٹیکس دیں تو کیوں دیں، اس سے بہتر سمجھتے ہیں کہ خود ہی کسی غریب کی مدد کر دیں۔
دراصل ہر آنے والی حکومت آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک سے قرضہ ملک کے لئے نہیں بلکہ خود کے لئے لیتی ہے۔۔۔
میرا پاکستان والے بھیا اسی لیۓ کہا جاتا ہے نیم حکیم وبال جان جناب کوئ دھی فروش دھی بیچنے نکلے اور سب سے تحقیق کرتا پھرے کہ کس کمائ حلال ہے ہمیں معلوم ہے کہ آپ کا جاب ورک ہی مسلمانوں کو گمراہ کرنا اور پستی میں ڈالنا اسکا ادراک ہم بہت پہلے کرچکے تھے اس تحریر نےآپکی حقیقت عیاں کردی آپ کا مطلب یہ ھے کہ دکاندار جو اپنا سامان بیچ رہا ہے وہ رقم سود ہے؟ جناب آپ کے مطابق دین محمدی پر چلنا اب ناممکن ہے لہذا قادیانی کی یا شیعہ کی پناہ میں جانا پڑیگا جناب آپ کے مطابق اب سود سے بچنا ناممکن ہے مطلب دین محمدی پر عمل ناممکن ہے
مسلمانی کو بھاڑ میں بھیجنے والا خود بھاڑ میں جاۓ گا جناب ایک شخص کسی کے یہاں مزدوری کرنے جاۓ تو مزدوری نہ لے کیونکہ وہ سود ہے میراپاکستان کا فتوی
سود سے بچنا مشکل نہیں ناممکن ہے. میراپاکستان کافتوی
مسلمانی گئ بھاڑ میں قادیانی یاشیعہ ھوجاؤ .. میراپاکستان کافتوی
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا
یہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فرمان کو بیان کرنے کا دوسرا طریقہ ۔ سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
اسلام علیکم،
طفل صاحب آپ کی باتیں واقعی میں طفلانہ لگتی ہیں۔
جو فتویٰ جات آپ میرا پاکستان پر دھونس رہے ہیں مُجھے تو وہ سراسر آپ کی اختراع لگتے ہیں۔
اس چیز کی صحیح تشریح افتخار صاحب نے کی ہے کہ ہمیں اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش خود کرنی ہے۔
آپ کی طرف سے تو خدمت دینیہ یہ لگ رہی ہے کہ جو نشترزنی کرتے ہوئے برائیوں کو نکال باہر کرنا چاہتا ہے اُسی کا منہ بند کرنے کی کوشش کرو۔
صحیح کہا دردیلے جی مصلح امت میراپاکسان ہیں جس کو مسلمانوں کی برائیاں ڈھونڈنےسے فرست نہیں تو امت کی اصلاح کے لیۓ عمل جراحی ہے یہ جسے مردوں کو برا کہنے میں بھی عار محسوس نہیں جن کو بے نظیربھٹومردہ باد جنرل ضیا مردہ باد اور لیاقت علی کو براکہنےسےفرصت نہیں اس کا کیا مطلب ہے اس نشتر سے کس چیز کا علاج ہوگا؟
جب نشتر ایسے ہی گھونپا جاۓ بطور خنجرتوکیاہوگا
افتخار اجمل صاحب کی بات سےمتفق ہوں
جو اس طرح خنجرسےنشترلگاتےرہیں
ایسے مصلحین اصلاح کے بجاۓ فساد ہی پھیلاتے ہیں
ہم نے پاکستانیوں اور گوروں میں ایک فرق دیکھا ہے ہم سمجھتے ہیں اسی فرق کی وجہ سے گوری چمڑی پاکستان سمیت مسلمانوں پر حکمران ہے۔
وہ فرق یہ ہے۔ ہم پاکستانی غلطی کا مستقل حل ڈھونڈنے کی بجائے غلطی کرنے والے کو کوسنے میںوقت ضائع کرتے رہتے ہیں جبکہ گورے غلطی کرنے والے کو کچھ نہیںکہتے بلکہ غلطی کی اصلاح ایسے کرتے ہیںکہ غلطی کرنے والا بھی دوبارہ ایسی غلطی نہیںکر پاتا۔
آج کی پوسٹ میںمسئلہ یہ تھا کہ جب ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی سود ادا کر رہے ہیںتو پھر سود کے حرام حلال کی بحث کس منہ سے کریں۔ اس وقت پاکستان کوئی پچاس بلینڈالر کا مقروض ہے یعنی ہر آدمی کی گردن پر تقریبا تین ہزار ڈالر کا قرض ہو گا جس کا سود اسی کی آمدنی اور خریدوفروخت سے ٹیکس کاٹ کر ادا کیا جا رہا ہے۔ اب بتائیں کہ ہم لوگ سود کی لعنت سے کیسے بچے ہوئے ہیں اور آخرت میں اپنے رب کو کیسے قائل کریںگے کہ ہمارے پیٹ میںسود داخل نہیںہوا تھا۔
آپکا منشا ہے سود حلال ھو جاۓ آپ کی یہ بے سروپا باتیں اپنے پلے نہیں پڑنے والی بے وجہ آپ ایک شخص کو ایسے قرض کا مرتکب بتا رہے ہیں جو اس نے لیا ہی نہیں ایسا گناہ کا مرتکب جو اس نے کیا نہیں بہت خوب !!!لگا رھو مسلمانو کو الو بنانے میں مقتی جی
Leave A Reply