حکومت پاکستان نے آخر کار ہماری مذاکرات کی تجویز مان ہی لی اور مالاکنڈ سوات کے طالبان سے مذاکرات کرنے پر راضی ہو گئی۔ جس علاقے کو حکومت لڑائی سے فتح نہیں کر سکی اسے مذاکرات سے فتح کر لیا۔ انجنیئرنگ کا ایک اصول رہا ہے کہ اگر ایک پرزے کی خرابی پکڑنے کیلیے کوئی حل کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی حل دوسرے پرزوں کی خرابی پکڑنے کیلیے نافذ کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر مذاکرات سے مالاکنڈ سوات میں امن قائم ہو سکتا ہے تو پھر اسی طرح شمالی علاقوں اور بلوچستان میں بھی امن قائم ہو سکتا ہے۔ سیاست کا اصول “کل کے دشمن آج کے دوست” اگر جنگ زدہ علاقوں پر لاگو کیا جائے تو امن قائم ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ حکومت میں اپنے آقاؤں کی حکم عدولی کی جرات ہو تو۔

دوسری بات اگر مالاکنڈ سوات میں حکومت شریعت نافذ کر سکتی ہے تو پھر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں کیوں نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت فوری طور پر ملک میں شریعت نافذ کر دے بلکہ ہم چاہیں گے کہ حکومت پہلے مالاکنڈ سوات میں شریعت کے نفاذ کا کچھ عرصہ مطالعہ کرے اور اس تجربے کے کامیاب ہونے پر ملک میں شریعت نافذ کر دے۔ امن معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ شریعت کے نفاذ کے بعد مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کر دیا جائے گا۔ وہی جج تعینات کئے جائیں گے جو شریعت کا علم رکھتے ہوں گے۔ خلاف  شریعت تمام قوانین منسوخ کر دیے جائیں گے۔ ان اچھائیوں کو ملک میں نافذ کرنے کیلیے شریعت کے نفاذ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگرحکومت چاہے تو اس طرح عوام کو فوری انصاف کا وعدہ پورا کر سکتی ہے۔

ہم حکومت سے یہی استدعا کریں گے کہ بخدا امریکہ سے ڈرون حملے بند کروائیں اور مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔ آئرلینڈ کی جنگ کی مثال ہم پھر دیں گے یعنی اگر وہاں پچاس سال سے زیادہ جاری رہنے والی جنگ امن قائم نہیں کر سکی اور آخر کر برطانیہ کو مذاکرات کا راستہ اپنا کر اس مسئلے کو حل کرنا پڑا تو پھر اسی طرح یورپی ممالک پاکستان سمیت دنیا کے تمام شورش ذدہ علاقوںمیں مذاکرات کے ذریعے امن کیوں قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایسا نہ کرنا ان کے دماغی خلل کی عکاسی کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور خاص کر مسلمان علاقوں میں۔