اپنے وقت کا بہت مشہور گانا تھا

ظلم رہے اور امن بھی ہو

کیا ممکن ہے تم ہی کہو

اگر ظلم اور امن کو دوغلے پن سے تشبیہ دی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں مگر ہمارے سیاستدانوں نے اس اصول کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اٹ کتے کا بیر چلا رہا ہے اور خاص کر پنجاب حکومت اور گورنر پنجاب تو جیسے سوکنوں کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

اس ہفتے پنجاب اسمبلی کے کوٹے سے جب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تو پتہ چلا کہ سیاست میں اچھا برا سب جائز ہے۔ پنجاب کے وزیراعلی اور گورنر سندھ کی ملاقات نے تو سب کو حیران کر ہی دیا تھا کہ اب مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری شجاعت کا بلامقابلہ انتخاب کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔

اسی طرح کل چیف جسٹس چوہدری افتخار کے پشاور کے دورے میں مسلم لیگ ن کی عدم شرکت نے ہمیں مزید حیران کر دیا ہے۔ ان حوادث سے تو یہی لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی تقدیر کی ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہاتھ اتنے مضبوط ہیں کہ سیاستدانوں کو ایک سو اسی درجے پلٹا کھا کر بے غیرت بننا بھی برا نہیں لگتا۔

لگتا ہے نئے وائسرائے کی نواز شریف سے ملاقات نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نے وکلاء کے لانگ مارچ میں عدم دلچسپی دکھانی شروع کر دی ہے۔ دوسرے سینیٹ کے موجودہ انتخابات نے جہاں دوسری جماعتوں کو ننگا کیا ہے وہاں مسلم لیگ ن کا دوغلا پن بھی واضح ہو گیا ہے۔

اگر پارٹیاں اسی طرح دوغلے پن کا مظاہرہ کرتی رہیں تو پھر ان کے بیانات صرف مصطفی قریشی کی بڑھکیں ہی رہ جائیں گے۔ پتہ نہیں کب ہمیں بااصول سیاستدان نصیب ہوں گے جو اپنے اصولوں کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینا فخر سمجھا کریں گے۔