ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ ماضی اور حال میں ادیبوں کی آپس میں چپقلش ایک معمول رہی ہے مگر اس چپقلش کا نقصان ہمیشہ ادب کو ہی ہوا ہے۔ اسی طرح کی زہر افشانی بعض لوگ اپنے تبصروںمیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایوارڈ یافتہ بلاگر راشد کامران نے اپنی ایک تحریر “سبز تبصرے” میں ایسے لوگوں کی خرابی کی نشاندہی کی ہے۔ ہمارے خیال میں بھی کسی بھی تحریر یا موضوع پر ادبی بحث ہونی چاہیے اور تبصرہ نگار کو کبھی بھی ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ہم نے عالمی اخبار کی ایک تحریر پر تبصرہ کیا کر دیا کہ اس کے کرتا دھرتا تو ہمارے پیچھے ہی پڑ گئے۔ انہوں نے ہمارے تبصرے کو ذاتی تنقید سمجھ لیا اور بدلے میں ہم بلاگرز کو بھینس کی جگالی سے تشبیہ بھی دے دی۔ اپنا مقدمہ پیش کرنے کی بجائے ہم اپنے اور ان کے تبصرے کی نقل یہاں چھاپ کر فیصلہ قارئین پر چھوڑ رہے ہیں۔

میرا پاکستان نے کہا ہے

ہم اس بات سے قطعی طور پر اختلاف کریں‌گے کہ شاعری بغیر علم عروض کے ہو سکتی ہے۔ ہر ہنر کا کوئی طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے، چاہے نثر ہو یا نظم یا کوئی اور ٹیکنیکل پیشہ اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم شاعری کو آزاد نہیں‌چھوڑ سکتے۔ ہم تو یہی کہیں‌گے کہ شاعری کرنے سے پہلے علم عروض سیکھیں وگرنہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‌ہے۔

صفدر ھمٰدانی نے کہا ہے

میرا پاکستان جی۔ خوش آمدید۔ دیکھیں آپ کو اختلاف کا حق ہے اور اس حق کو کوئی چیلنج نہیں کرتا۔ آپ کا ایک نکتہ نظر ہے اور ہمارا دوسرا۔ نہ ہم اپنا نکتہ نظر آپ پر تھوپتے ہیں اور نہ آپ بیک جنبش قلم اسکو خود ساختہ قانون بنا کر ہم پر لاگو کریں۔ ہم نے عروض کی اہمیت سےا نکار نہیں کیا ،یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ آپ کا یہ فرمانا کہ ”شاعری کرنے سے پہلے علم عروض سیکھیں وگرنہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‌ہے”۔ یہ ذرا جارحانہ رویہ ہے اور ایسی ہی سوچ نے ادب کو نقصان پہنچایا ہے۔ شاعری میں فکر،شکوہ الفاظ،زبان اور ایسے ہی دوسرے عناصر بھی تو ہیں۔ آپ صرف ایک عروض کی وجہ سے سب کو اس دائرہ شاعری سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔ یہ علم کو پھیلانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اپنی بات ضرور کہیئے لیکن دوسرے کی بات کو بھی سنیئے۔ آپ کا یہ فرمانا کہ ”شاعری کو آزاد نہیں چھوڑ سکتے” بہت عجیب سا لگا کیونکہ اب تو آزاد شاعری باقاعدہ طور ایک مستند شاعری ہے جس میں عروض کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔تو کیا آپ آزاد شاعری کو شاعری نہیں کہیں گے۔
پھر معاملہ صرف آزاد شاعری تک نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے ”نثری نظمیں” لکھی جا رہی ہیں اور اسی طرح فارغ بخاری اور عدیم ہاشمی سمیت کئی شعرا نے آزاد غزل کے تجربے بھی کیئے ہیں۔ دراصل کسی بھی معاملے میں ذہن کی کھڑکی کو بند کر لینے سے دراصل ہم خود کو ہی نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
اس اخبار کی انتظامیہ کے اس فرد کے طور پر آپ سے یہ بھی درخواست ہے کہ آپ اپنے نام سے تبصرہ لکھیئے کیونکہ ”میرا پاکستان” اور اس قسم کے فرضی ناموں سے ہم تبصرے یا بلاگ شائع نہیں کرتے یہ اخبار کی پالیسی ہے۔ امید ہے آپ اخبار کے طریقے اور سلیقے کا بھی خیال رکھیں گے۔کیونکہ نام کے بغیر لکھے گئے تبصروں کو حذف کرنے کا اختیار اخبار کی انتظامیہ کو ہے۔ شکریہ

صفدر ھمٰدانی نے کہا ہے

مصباح بھائی بلاگ پر آتے تو گاہے گاہے ہیں لیکن جب بھی آتے ہیں خامہ بدست اور دلیل بدوش آتے ہیں۔مجھ طالب علم کی بات کو انہوں نے وقعت دی اور اپنے نظریے کا کھل کر اظہار کیا جس پر میں انکا ممنون ہوں۔ میں دراصل پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ اس انتر نیٹ کی دنیا نے بہت اچھے کام کیئے ہیں لیکن ایک ہزار اچھے کاموں کے بدلے میں ایک ایسا شیطانی کام بھی کیا ہے کہ الامان۔ بات یہ ہے کہ جس کسی کے پاس بھی ڈیڈھ سو ڈالر ہیں اس نے اپنی ویب سائٹ کھول لی ہے اور جو جی میں آئے لکھتا رہتا ہے اور اس پر بضد بھی ہے کہ اسکی بات کو تسلیم کیا جائے کہ وہ علامہ،ابن علامہ،ابن علامہ ہے۔ ویب سائٹ کے لیئے تو چلیں کچھ پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں لیکن اس بلاگ کے کینسر نے تو الگ تباہی مچا دی ہے کیونکہ بلاگ بنانے میں اب کوئی پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑتا اور زیادہ تر بلاگر نے اپنا ایک ایک صفحے کا بلاگ بنا کر جیسے اردو ادب ہی نہیں بلکہ عالمی اور آفاقی ادب کے ساتھ ساتھ فلسفے اور انٹرنیٹ پر بھی احسان عظیم کیا ہے۔ خود اپنے طور پر اپنی ہی ذہنی استعداد کے مطابق بس اپنے صفحے پر لکھتے رہنا بھینس کی جگالی کی طرح ہے۔ عالمی اخبار کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ عالمی سطح کا اردو زبان میں روزنامہ ہے جو دن میں کم از کم 5 بار اپڈیٹ ہو تا ہے اور یہ رفتار دنیا کی بڑے بڑے اخبارات کی ویب سائٹوں سے زیادہ ہے۔ بلاگ تو اس اخبار کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے جس کا واحد مقصد قارئین کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھنا اور انکی فکر سے مستفیض ہونا ہے۔ بس ایک بات یاد رکھیں کہ بحث کا مقصد کبھی کسی کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ ایک دوسرے کی فکر سے سیکھنا ہے، یقین کیجئے کہ یہ ”لكم دينكم ولي دين” والا معاملہ ہے۔ اور ڈاکٹر نگہت نسیم صاحبہ تو اسے ”تختی” لکھ کر سارا معاملہ ہی ختم کر دیا ہے۔ اس لیئے ممکن ہے کہ اب بات تقطیع کی بجائے تختی پر ہو۔

میرا پاکستان نے کہا ہے

صفدر صاحب، آپ نے اپنے پہلے تبصرے میں جن باتوں کا مورد الزام ہمیں‌ ٹھرایا اگلے ‌تبصرے میں‌اسی طرح کا زہر اگل کر کیا ثابت کیا ہم سمجھ نہیں‌سکے۔ہم اپنے قلمی نام “میرا پاکستان” سے لکھتے ہیں‌اور یہی ہماری پہچان ہے اور ہماری ویب سائٹ مائی پاکستان ڈاٹ کام پر تنقید سر آنکھوں پر مگر آپ جیسے مدبر آدمی سے اس طرح کی باتیں کچھ عجیب سی لگیں۔ دیکھیں‌ہم نے تو یہ کہنے کی کوشش کی کہ ہرہنر کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور کوئی بھی کام ان کے بغیر وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ جس طرح ہر پیشہ اپنے اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح شاعری بھی۔ اب آپ کسی بھی میدان میں‌بے لگام گھوڑے دوڑائیں‌گے تو میدان کا ستیاناس تو ہو گا ہی۔ یہی بات آپ نے ہماری ویب سائٹ پر تنقید کر کے ثابت کر دی ہے یعنی جس کے منہ میں‌جو آتا ہے لکھے جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ ادیب ہے۔ اگر یہی بات آپ پر لاگو کی جائے تو کیا آپ کو برا نہیں‌لگے گا۔
ہمارا اصل نام افضل ہے اور ہم مائی پاکستان ڈاٹ کام کے لکھاری ہیں۔ آپ کی تنقید سر آنکھوں پر اور اسے ہمیشہ ہم تعمیری انداز میں‌ہی لیں‌گے۔ مگرخدارا اپنے زہریلے تبصروں کے آئینے میں کبھی خود کو بھی دیکھنے کی کوشش کیجیے گا تا کہ آپ کی بھی اصلاح ہو سکے۔

یہاں ہم وضاحت کر دیں کہ شاعری کو آزاد چھوڑنے سے ہماری مراد غزل کو آزاد چھوڑنا تھا۔ ہم خود آزاد شاعری کو مانتے ہیں مگر غزل کو نظم و ضبط کا پابند ہونا ہی چاہیے یہی اس کی جوبصورتی کا راز ہے۔