صدر مشرف کا فيملي انٹرويو پي ٹي وي پر ديکھا جہاں انہوں نے ذاتي کم اور عوامي باتيں زيادہ کيں۔ ايک موقع پر جب انٹرويو لينے والي خاتون نے ان سے ادھورے رہ جانے والے کاموں کے بارے ميں پوچھا جس پر انہيں پچھتاوا ہورہا ہو تو انہوں نے چار باتوں کي طرف اشارہ کيا۔ ان ميں آخري بات بيوروکريسي کي اوورہالنگ کرنے کا ارادہ تھا جو وہ اپنے پہلے تين سال ميں پورا نہ کرسکے اور اسے آئيندہ آنے والي حکومت پر چھوڑ ديا جو اب تک ادھورا ہي ہے۔

بيوروکريسي ہمارے ملک کے جو طاقتور حکمران طبقے ہیں ان ميں سے ايک ہے۔ جس طرح آج کے بعد فوج کے بغير کوئي حکومت مکمل نہيں ہو پايا کرے گي اسي طرح ازل سے بيوروکريسي کے بغير کوئي حکومت مکمل نہيں ہوتي تھي اور نہ ہوا کرے گي۔ يہ تو صدر صاحب کو حکومت ميں آنے کے بعد پتہ چلا ہوگا کہ يہ جنس کتني طاقتور ہے اور اس کي پہنچ کہاں کہاں تک ہے۔

ايک وقت تھا کہ حکومتوں ميں گنے چنے غدار ہوا کرتے تھے ليکن اب تو ملک کي آدھي آبادي غدار ہوتي ہے۔ اگر ايک حکمران غيرملکي طاقتوں کے ايجينڈے پر عمل کرنے سے انکار کردے تو دوسرا اس کي جگہ لينے کيلۓ پہلے ہي تيار ہوتا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ ڈکٹيٹرز ہميشہ سے بيوروکريسي اور غدار سياستدانوں کو ڈرا دھمکا کر يا لالچ دے کر ساتھ ملا ليتے ہيں اور طويل عرصے تک حکومت کرتے رہتے ہيں۔ يہ سچ ہےکہ اس ملک پر دنيا کي کوئي بھي طاقت قبضہ نہيں کرسکتي جس ميں غدار نہ ہوں۔

اب ہماري صدر صاحب سے يہي گزارش ہے کہ جس طرح انہوں نے نواز شريف اور بے نظير کو جلاوطن کرکے بہت مشکل کام کيا اسي طرح وہ بيوروکريسي کي اوورہالنگ کا کام بھي شروع کرسکتے ہيں۔ اس کام کے کرنے کيلۓ انہيں جتنا عرصہ درکار ہے وہ انہيں پہلے ہي ميسر ہے بس ذرا دل بڑا کرنے والي بات ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے ميں ساري خرابيوں کي جڑ پوليس کا کرپٹ محکمہ ہے اور اسے صرف اور صرف بيوروکريسي کي اوورہالنگ سے ہي درست کيا جاسکتا ہے۔

ان سے جب پوچھا گيا کہ قوم انہيں کس طرح ياد رکھے گي تو انہوں نے کہا کہ ايک نجات دہندہ کر طور پر۔ مگر ہم اس بات سے اختلاف کريں گے کيونکہ اب تک جو بھي انہوں نے کيا ہے دوسروں سے کوئي الگ نہيں کيا۔ ان کي جگہ کوئي بھي حکمران ہوتا تو وہ ہھي يہي کرتا جو انہوں نے کيا۔ اگر انہوں نے ڈکٹيٹر کي بجاۓ اپنا نام اچھے الفاظ ميں تاريخ ميں درج کرانا ہے تو پھر ايک دو بڑے بڑے فيصلے کرنے ہوں گے۔ عدالتوں اور پوليس کو کرپشن سے پاک کرنا ہو گا اور اليکشن کا ايسا نظام سيٹ کرنا ہو گا کہ جس کي وجہ سے صرف اور صرف ايماندار اور مخلص لوگ منتخب ہوکر اسمبليوں ميں پہنچ سکيں۔

يہ کام اتنے مشکل ہيں کہ صدر مشرف جيسے حکمران کيلۓ ناممکن لگتے ہيں اور ہميں ابھي مستقبل ميں بھي کوئي ايسا سياستدان نظر نہیں اتا جو اس طرح کا محب وطن بن کر دکھاۓ گا۔ اگر صدر مشرف صاحب يہ کام کرکے پاکستان پر احسان کرسکيں تو ان کا نام قائد اعظم کے بعد ايک بڑے ليڈر کے طور پر ہميشہ کيلۓ تاريخ ميں رقم ہو جاۓ گا۔