مسلم لیگ ن کے ایم این اے حاجی پرویز کا امتحانی فراڈ کیس منظر عام پر آیا ہے اور اس کی تحقیقات ہو رہی ہے۔ جس انسپکٹر نے چھاپہ مارا اس کے بقول تو یہی لگتا ہے کہ پرویز صاحب فراڈیے حاجی ہیں۔ انسپکٹر کا کہنا ہے کہ جب اس نے امتحانی مرکز پر چھاپہ مارا، سپرنٹنڈنٹ موبائل فون پر بات کر رہا تھا جو کہ امتحانی مراکز میں ممنوع ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اسی فون پر کال سنی جس میں کہا جا رہا تھا کہ مرکز پر چھاپہ پڑنے والا ہے پرچہ دینے والے لڑکے کو مرکز سے بھگا دیا جائے۔ اس دوران پندرہ بیس لوگ حال میں داخل ہوئے اور حاجی پرویز کے بھتیجے بلال کو بھگا کر لے گئے۔

1100616015-1

اسے کہتے ہیں منہ مومناں تے کرتوت کافراں۔

ہمارے خیال میں یہ کیس ایسا نہیں ہے کہ جس کا فیصلہ ایک ہی دن میں نہ ہو سکے۔ بورڈ میں اگر حاجی پرویز نے داخلہ فارم جمع کرائے تھے اور انہیں رول نمبر بھی ایشو کیا گیا توامتحانی مرکز میں پکڑے جانے والے پرچے سے اس بات کی تصدیق بہت آسانی سے ہو جائے گی کہ پرچہ حاجی صاحب کا ہی تھا یا کسی اور کا۔ حاجی پرویز کی اگر شکل دیکھی جائےتو وہ واقعی باریش حاجی لگتے ہیں مگرجب حاجی بھی کئی قسم کے ہوں تو پھر حاجی صاحب پر بھی شک کرنا پڑے گا۔

حالات و واقعات سے تو یہی لگتا ہے کہ حاجی صاحب واقعی فراڈیے ہیں اور انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اب وقت ہے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے کا اور ان کی غیرجانبداری چیک کرنے کا کیونکہ حاجی صاحب اس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جس نے انہیں چیف کی کرسی واپس دلوائی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ حاجی صاحب کو پاکستان کی کوئی بھی عدالت سزا دینے کے قابل ہے۔ یہ چیف صاحب ہی ہیں جو حاجی صاحب کو سزا دے کر دوسروں کیلیے عبرت کا نشان بنا سکتے ہیں۔ چیف صاحب کو معلوم ہونا چاہیے جب بااثر لوگوں کو سزا ملے گی تو تبھی عام آدمی کا قانون پر اعتماد بحال ہو گا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب وزیر قتل کے جرم سے بری ہو سکتا ہے تو امتحانی فراڈ تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن چیف صاحب بھی اگر حاجی پرویز کو سزا نہ دے دسکے پھر بھی حاجی صاحب کا سیاسی کیریئر تو ختم ہو جانا چاہیے۔ جس طرح قاتل وزیر ذلیل و رسوا ہوا اور اپنے سیاسی کیریئرسے ہاتھ دھو بیٹھا اسی طرح حاجی صاحب بھی اگر برطرف نہ کئے گئے تو امید واثق ہے کہ لوگ اگلے الیکشن میں ان کا تختہ الٹ دیں گے۔

ویسے ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی جب سپریم کورٹ پہلے ہی بی اے کی سند کی شرط ختم کر چکی ہے تو پھر حاجی صاحب کو انٹر کا امتحان دینے کی کیا ضرورت تھی۔ جب بی اے فیل ملک کا صدر بن سکتا ہے تو پھر انٹر فیل حاجی صاحب کی رکنیت کو کونسا خطرہ تھا۔ اگر اس دلیل پر غور کریں تو پھر حاجی صاحب کی بات میں وزن ہے یعنی ان کیخلاف سازش ہوئی ہے۔

مگر ہماری سوئی وہیں آ کر اٹکتی ہے کہ یہ کیس بہت آسان ہے اور اگر کوئی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہے تو اس کیلیے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔