خاور صاحب نے کنويں کا پاني صاف کرنے والي کہاني تو سنا دي مگر بقول ايک دوست کے کتا کون ہے يہ نہيں بتايا۔ ان کي کہاني سن کر ہميں بھي ايک بہت ہي مشہور کہاوت ياد آگئي۔ وہ کچھ اس طرح ہے۔

ايک بادشاہ نے سوچا کہ لوگوں کي ايمانداري کا امتحان ليا جاۓ۔ اس نے اپني رعايا کو حکم ديا کہ وہ آنے والي رات ميں ايک خالي کنويں ميں ايک ايک بالٹي دودھ ڈاليں۔ اب ہر کوئي بالٹي بھر کر لے کر جاتا اور ادھر ادھر جب ديکھتا کہ کوئي اسے نہيں ديکھ رہا تو بالٹي کنويں ميں انڈيل کر واپس آجاتا۔ صبح جب ہوئي تو بادشاہ سلامت کنويں کي طرف چل پڑے يہ ديکھنے کيلۓ کہ کنواں دودھ سے بھر گيا ہے کہ نہيں۔ کنويں کے اندر بادشاہ نے جب ديکھا تو اس کي آنکھيں پھٹي کي پھٹي رہ گئيں۔ کنوان دودہ سے نہيں بلکہ پاني سے بھرا پڑا تھا۔ دراصل ہر شخص نے يہ سمجھ کر کہ سب لوگ دودھ ڈال کر آئيں گے اور اگر وہ ايک بالٹي پاني کي ڈال دے گا تو کسي کو کوئي پتہ نہيں چلے گا۔ اس طرح سب نے دودھ کي بجاۓ پاني کي بالٹياں کنويں ميں انڈيل ديں۔

يہي حال اب ہمارا ہے۔ ہر شخص يہ سمجھ کر حکومت کو لوٹ رہا ہے کہ چند لاکھوں سے حکومت مر نہيں جاۓ گي۔ اگر لوٹنے کي يہي رفتار رہي تو جلد ہي پاکستان کا کنواں بھي دودھ کي بجاۓ پاني سے بھر جاۓ گا۔ پھر يار لوگ اس کے کنارے بيٹھ کر مچھلياں پکڑا کريں گے۔