ادھر حسبہ اور حقوق نسواں بلوں کے پاس ہونے کی خبر ملی اور ادھر سمن آباد لاہور کے ناظم کی شراب میں مدہوش ایک ڈانسر سے مٹھائی کھانے کی تصویر کیساتھ ان کے مجرے دیکھنے کی خبر پڑھی۔ اسی لۓ ہم کہتے ہیں کہ جتنے مرضی حسبہ اور حقوق نسواں کے بل پاس کروالو معاشرہ تبھی سدھرے گا جب ان قوانین پر عمل ہوگا۔ میاں جاوید کی صورت میں ٹھوس ثبوتوں کیساتھ مجرم حاضر ہے اب اگر حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہے تو پھر اس پر ہاتھ ڈالیں ۔ لیکن چونکہ ہم روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی پینگیں چڑھا رہے ہیں اسلۓ میاں جاوید کو بھی پینگ جھولنے سے نہیں روکیں گے۔
اتنی بڑی خبر اتنے بڑے اخبار میں چھپنے کے باوجود اگر ملک میں بھونچال نہ آسکا تو ہم سمجھیں گے کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی اب ايسي ذلالتوں کے عادي ہوتے جارہے ہيں۔
گواہ رہۓ گا نہ میاں جاوید معطل ہوگا اور نہ اس پر مقدمہ چلے گا۔ جس شخص نے دس لاکھ روپیہ ایک رات میں ایک طوائف پر بہا دیا اس سے کوئی انکم ٹیکس والا افسر نہیں پوچھے گا کہ تم نے اس کا ٹیکس بھی جمع کروایا کہ نہیں ۔ نيب کا ادارہ بھي حرکت میں نہيں آۓ گا۔ پولیس کو بھی یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ اس پر شراب پینے کا مقدمہ درج کرے۔
پولیس کا کردارتو شروع سے ہی خراب رہا ہے۔ کئی سال پرانی بات ہے جب مہدی حسن کا طوطی بولتا تھا۔ ایک دن وہ شراب کے نشے میں دھت پولیس کو ملے تو انہیں تھانے لے آۓ۔ وہاں تھانیدار اور دوسرے پولیس والوں نے ان سے صرف گانا سنا اور چھوڑ دیا۔ کسي کو جرٔات نہ ہوئي کہ وہ مہدي حسن کو شراب پينے کے جرم ميں اندر سکتا۔
ہم روشن خیالی میں اسقدر مست ہیں کہ اپنے بیالیس فوجیوں کے شہید ہونے کا سوگ بھی پوری طرح نہیں منا سکے۔ ان فوجیوں کو شہید ہوۓ ابھی دو چار دن ہی ہوۓ تھے کہ ہمارے جنرل صدر لاہور کے الحمرا حال میں تماشا دیکھ رہے تھے۔
ہونا تو یہ چاہۓ کہ میاں جاوید کو اس فحاشی کے الزام میں حدود آرڈینینس کے تحت گرفتار کیا جاۓ اور ان کو ان کی سیٹ سے ہٹا دیا جاۓ۔ اس مقدمے کو ٹی وی پر دکھایا جاۓ اور ان کو سزا بھی چلیں سرِ عام نہ سہی مگر دوسرے ناظمین کی موجودگی میں دی جاۓ۔
9 users commented in " حدود آرڈينینس اور ناظم میاں جاوید "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackماشاءاللہ
اچھا لگ رہا ہے آپ کے بلاگ پر ویب پیڈ۔
بات کی کی ٹھیک ہے جناب۔
حس ہی مر گئی ہے اور غیرت نہیں رہی۔ ورنہ زمین نہ پھٹ جاتی۔
جناب عالی ۔ جو قانون منظور ہوا ہے وہ فحاشی کو روکنے نہيں عام کرنے کے لئے بنايا گيا ہے کيونکہ اسکے مطابق باہمی رضامندی سے کيا ہوا زنا صرف اس وقت جرم بنے گا جب کہ دو عينی شاہد گواہ بيان ديں کہ انہوں نے ان مرد و زن کو زنا کرتے ہوئے خود ديکھا ہے اور اگر ان کو زنا کاروں کے وکيل جھٹلا نہ سکيں ۔ پھر اگر زنا ثابت ہو جائے تو سزا پانچ سے سات سال قيد ہو گی ۔ اور ہاں مقدمہ کی کاروائی کے دوران زناکاروں کو شخصی ضمانت پر رہا بھی کيا جا سکتا ہے ۔
اجمل صاھب آپ یہ بھی تو دیکھیں نا کہ اگر یہ شق نہ ہو تو پھر کوئ بھی کسی پر بھی یہ الزام لگاکر سزا کروا سکتاہے،ویسے تو اس معاشرے میں غلط اور صحیح کا کوئ تصور باقی ہی نیں رہا ہے،جہاں خدا خوفی نہ ہو وہاں سب کچھ ممکن ہے،
اسلامی سزا سنگسار ہے شادی شدہ کو اور غیر شادی شدہ کو 100 کوڑے اور علاقہ بدری
لیکن یورپ کی نظر میں یہ سزائیں وحشیانہ ہیں اس لیئے کیسے دی جاسکتی ہیں،دوسری بات اسلام سزا سے پہلے معاشرے کے سدھار کی بات کرتا ہے کہوں کہ اسلام سزایئں دینے کے لیئے نہیں لوگوں کے اخلاق اور اعمال سدھارنے کے لیئے آیا ہے یعنی لے دے کر بات وہیں آجاتی ہے کہ پہلے اسلامی تعلیمات پھر اسلامی قوانین پر عمل درآمد،یعنی دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال آچھا ہے،
مجرے لاہور کے کلچر کا ایک حصہ ہیں۔ حدود ترمیمی بل سے پہلے بھی اگر یہ ناظم ایسی حرکت کرتا تو کوئی اس کا کچھ نہیں کرتا۔حدود ترامیم سے پہلے بھی لاہور میں شراب، مجرے، رقص و سرور کی محفلیں اتنی ہی عام تھیں۔
نعمان، بھائی لاہور کا کلچر کوئی ایسا گیا گزرا بھی نہیں ہے۔ باقی افضل صاحب کی اس پوسٹ میں کئی باتیں سوال طلب ہیں۔ اس کے بارے میں بعد میں بات کروں گا۔
کیا بات کر رہے ہیں افضل صاحب یہاں تو آوے کا آوا ہی بغرا ہوا ہے، حمام میں سبھی تو ننگے ہیں پھر کون کس کو پکڑے گا۔
نبیل لاہور شہر کا کلچر گیا گزرا نہیں لیکن مجروں کی ایسی محفلیں وہاں دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ عام ہیں اور زیادہ کھلے بندوں منعقد ہوتی ہیں۔
Leave A Reply