ٹونٹی ۲۰ ٹورنامنٹ اسی ہفتے شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔ پاکستان کی ٹیم وارم اپ میچ جنوبی افریقہ سے بری طرح ہار چکی ہے۔ سبھی کا یہی خیال ہے کہ کرکٹ بائی چانس کی اصطلاح پاکستان کی ٹیم کیلیے سو فیصد سچ لگتی ہے۔ کیونکہ یہی ٹیم ایک میچ میں ریکارڈ فتح حاصل کرتی ہے تو دوسری طرف ریکارڈ شکست کھا جاتی ہے۔
اس دفعہ جو کرکٹ ٹیم چنی گئی ہے اس میں مزید بہتری آ سکتی تھی اگر کرکٹ بورڈ اپنی روایت سے ہٹ کر پھرتی دکھاتے ہوئے آئی سی ایل کے کھلاڑیوں کو بھی ٹیم میں شامل کر لیتا۔ عمران نذیر، رانا نوید، عبدالرزاق کو ٹیم میں ضرور جگہ دینی چاہیے تھی۔ موجودہ کھلاڑیوں کی پچھلی کارکردگی کو اگر دیکھا جائے تو سلمان بٹ کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی تھی۔
اس کے علاوہ پاکستان کی ٹیم پچھلے کچھ عرصے سے بھرپور کرکٹ نہیں کھیل پائی اور نہ ہی اس کے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ اس طرح ایک طرف اگر وہ زنگ آلود نظر آتے ہیں تو دوسری طرف باقی ٹِموں کے مقابلے میں تروتازہ بھی ہیں۔
ہماری کرکٹ ٹیم یہ ٹورنامنٹ جیت سکتی ہے
اگر سلمان بٹ نے اپنا سٹرائیک ریٹ زیادہ رکھا
اگر یونس خان نے پانچویں نمبر پر بیٹنگ کی، ٹیم کا مورال بلند رکھا اور سپنرز سے زیادہ اوورز کرائے
اگر آئی پی ایل کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے یونس خان نے کئی میچوں میں شاہد آفریدی یا سعید اجمل سے بولنگ کا آغاز کرایا
اگر سہیل تنویر کو موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے رانا نوید کی طرح پہلے بیٹنگ کیلیے بھیجا
اگر شاہد آفریدی نے دیکھ بھال کر بیٹنگ کی
اگر شعیب ملک کپتانی چھن جانے کے شاک سے باہر نکل آئے
اگر کامران اکمل وکٹ کیپنگ میں حاضر دماغ رہے
اگر فاسٹ باولرز نے اپنے آخری اوورز میں زیادہ تر یارکر پھینکے
4 users commented in " ٹونٹی ٹونٹی ۲۰۰۹ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاللہ کرے۔ پاکستان کو کامیابی ملے۔ مایوسی اور افسردگی میں گھری قوم کو کوئی مثبت پیغام اور خوشیاں ملیں۔
ورنہ یار لوگوں نے اپنے اپنے پیٹ پالنے کے لئیے پی سی بی اور ہاکی وغیرہ کی فیڈریشینز بنا رکھی ہیں۔ جن کے آفیشلز کی تنخواہیں ، خرچہ ، دفاتر کی تزئین آرائش اور انکے کروفر پہ اٹھنے والی رقم پاکستان میں تمام کھیلے جانے والے کھیلوں کی تمام کی تمام ٹیموں کے کھلاڑیوں کے مشاہیرے ، سہولتوں اور کھیل کے سازو سامان سے کئی گنا سے زیادہ ہیں۔
ایسے میں اچھے نتائج کی توقع ایک غریب ملک کے کھلاڑیوں کی اپنی ذاتی محنت اور خداد صلاحیتوں کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ کہ ایک چمکتے ہوئے اسپورٹ سٹار کو باہر کی ٹیمیں اور کلب اچھے مشاہیرے پہ خرید لیتی ہیں۔ اچھی زندگی کی یہ جائز خواہش اور پاکستان قومی ٹیم میں پاکستان کا نام روشن کرنے کی آرزو ہی وہ دو عناصر ہیں جن کی وجہ سے کھلاڑیوں سے امید کی جا سکتی ہے۔ ورنہ فرق صاف ضاہر ہے۔
کل رات کو بھارت کے خلاف جس “اعلیٰ کارکردگی” کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے تو تمام “امیدوں” پر پانی پھیر دیا ہے۔ گروپ اسٹیج سے بچ نکلے تو بھی غنیمت ہوگي۔ 🙁
بھارت کے خلاف کھیلنے کے بعد ھماری ٹیم صرف ایک درمیانے درجے کی ٹیم ثابت ھوئی ھے- ھمارے محترم کوچ و کپتان کی ساری کی ساری باتیں دھری کی دھری رہ گئیں، نہ صرف بلےباز ھی ناکام ھوئے بلکہ باولرز اّس سے بھی بری طرح ناکام نظر آئے۔ ھم کب تک اقرباپروری اور سفارش کے نظام میں پھنسے رھیں گے- اس سلیکٹڈ ٹیم میں عمران نذیر، رانا نوید، عبدالرزاق کو ضرور جگہ دینی چاہیے تھی۔ خاص طور پر عمران نذیر اور عبدالرزاق کو ڈراپ کرنے کا جواز ھی نھیں ھے۔
لکھنے کو تو لکھ دیا ھے مگر کس حکمران یا اعلی عھدےداران کو اس کا اثر ھونے والا ھے۔
نغمان صاحب
دراصل جب آئی سی سی کو ٹورنامنٹ کیلیے نام بھجوائے گئے تب تک آئی سی ایل کے کھلاڑیوں نے اپنے این او سی جمع نہیںکرائے تھے یہی ہمارے بورڈ کی مجبوری تھی کہ وہ آئی سی ایل کے کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ کیلیے منتخب نہ کر سکے۔ اسی لیے ہم لکھا کہ بورڈ کو پھرتی دکھا کر یہ معاملہ حل کرنا چاہیے تھا۔
Leave A Reply