پچھلے چند دنوں سے جس تبدیلی کا مسلم لیگ ن پر گمان ہو رہا تھا وہ تب یقین میں بدل گیا جب اسمبلی میں ملک کی موجودہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پر حکومت کے کہنے پر بحث کرنے سے پارٹی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ حیرانی ہے ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اسمبلی اراکین چین کی نیند سو رہے ہیں۔ کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ وہ شہید ہونے والوں کے بارے میں سوچ سکے۔ اگر یہی جنگ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہو رہی ہوتی تو اب تک جنگ بندی کیا تاشقند یا شملہ معاہدہ بھی ہو چکا ہوتا۔
مسلم لیگ ن نے جب سے چیف جسٹس کو بحال کروایا ہے اس کے عمل میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اب نہ مسلم لیگ ن کی قیادت ڈرون حملوں پر واویلہ مچاتی ہے اور نہ موجودہ جنگ کو غیروں کی جنگ قرار دیتی ہے۔ نہ مہنگائی پر چیخ رہی ہے اور نہ مشرف کے محاسبے پر زور دے رہی ہے۔ اس دوران میاں برادران نے اگر کوئی کام کیا ہے تو وہ اپنے مقدمات نپٹانے کا۔ آج اگر انہیں انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا جا چکا ہے تو کل ان کی سزائیں بھی معاف ہو جائیں گی۔
اب بھی لگتا ہے مسلم لیگ ن کے طرز عمل سے ان کے آقا خوش نہیں ہیں تبھی تو دونوں بھائیوں کو قطر طلب کیا گیا اور قطر کے امیر سے خفیہ ملاقات ہوئی۔ یہ بھی شک ہے کہ اس ملاقات میں ان کے آقا بھی شریک ہوئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہو گی کہ بجٹ اجلاس میں کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ بجٹ تیار کرنے والے ملازمین کو تین ماہ کی اضافی تنخواہ دینے کی حزب اختلاف نے سفارش کر دی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے اور اسے نواز کر وہ اپنا حق غلامی ادا کرنا چاہتے ہیں۔
پہلے صرف حکومت بکی ہوتی تھی، مشرف دور سے حزب اختلاف بھی بکی ہوتی ہے تبھی تو اسے فرینڈلی حزب اختلاف کا نام دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ہر احتساب سے آزاد ہے۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی بھی شاید حزب اختلاف کو کسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں دی گئی تبھی تو چوہدری نثار شروع کی دو چار بڑھکوں کے بعد غائب ہو چکے ہیں۔ اب تو ایک ہی کام رہ گیا ہے غریبوں کا واسطہ دے کر بھیک مانگتے جاؤ اور اپنی جیبیں بھرتے جاؤ کوئی تمہیں نہیں پوچھے گا۔