دو دن سے جاری حکومتی اتحاد کے مزاکرات میں بہت سارے اتار چڑھاؤ کے بعد اتحاد ایک مشترکہ بیان پر راضی ہو ہی گیا۔ اب طے پایا ہے کہ پہلے صدر کا مواخذہ ہو گا اور بعد میں ججوں کو بحال کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ مواخذے کیلیےکیا ان کے پاس ارکان اسمبلی کی تعداد بھی پوری ہے۔

ان مذاکرات ميں ایم کیو ایم اور فاٹا کے ممبران کو شامل نہیں کیا گیا اور ان دو پارٹیوں کے بغیر دو تہائی اکثریت حاصل کرنا حکومت کے بغیر ناممکن ہو گا۔ ایم کیو ایم سے صدر مشرف نے رابطہ کر بھی لیا ہے اور الطاف حسین کا بیان بھی چھپ گیا ہے کہ حکومت موجودہ مسائل کی بجائے ججوں کی بحالی اور صدر مشرف کے مواخذے کے چکر میں پڑي ہوئی ہے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کو حمایت کیلیے راضی کرنا کافی مشکل ہو گا۔ فاٹا والے تو بکاؤ مال ہیں جو زیادہ دے گا اسی کے ہو جائیں گے۔

صدر نے مواخذے کو سنجیدہ سمجھ کر چین کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ یعنی صدر مشرف نے مواخذے کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے اور اس طرح اگلے کچھ ہفتے ہمیں اقتدار کی رسہ کشي کا کھیل دیکھنا پڑے گا۔ اس دوران سیلاب سے لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں، بلکہ ملک کا بھی بڑا غرق ہوتا ہے تو ہوتا رہے، ہمیں تو اپنی کرسی بچانی ہے۔ ہمارے خیال میں تو یہ کھیل جلدی ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس کھیل میں تب تک خسارہ ہی حسارہ ہے جب تک کوئی ہار نہیں مان لیتا۔

کیا خیال ہے اس دفعہ وعدہ خلافیوں کے ریکارڈ قائم کرنے والی جمہوری حکومت اپنا وعدہ پورا کر سکے گی؟ صدر آسانی سے ہار مان لیں گے؟ جج بحال ہوں گے بھی کہ نہیں؟ جن ججوں نے حلف اٹھانے کی حامی بھر لی تھی ان کا کیا بنے گا؟

ان سوالات کے جوابات آنے والا وقت ہی دے گا تب تک مزے سے اس ڈرامے کی قسطیں دیکھیے اور مزے کیجئے۔ لیکن خيال رکھیے گا کہیں ڈرامہ دیکھتے دیکھتے آپ کا بھی ڈرامہ نہ بن جائے۔

نوٹ

آپ سے پھر درخواست ہے کہ ہماری تحریر ہائیڈ پارک کارنر پر تبصرہ ضرور کیجئے گا