يہ جملہ ہم اکثر اس وقت بولتے ہیں جب خدا کي ہزاروں نعمتوں ميں سے کسي ايک کا ايسا نظارہ ديکھتے ہيں جس پر وہم کا گمان ہونے لگتا ہے۔ يعني آدمي ايک دم سے مبہوت ہوجاتا ہے اور اسے يہ يقين آنے ميں کافي دير لگتي ہے کہ وہ جو ديکھ رہا ہے حقيقت ہے کوئي خواب نہيں۔ عام سي مثالوں ميں آسمان پر ستاروں کا چمکنا، سمندر ميں رنگ برنگي مچھليوں کي موجودگي، زمين سے پودے کا اگنا اور سب سے بڑھ کر بچے کا اس دنيا ميں آنا۔

آج کے دور ميں انٹرنيٹ ايک ايسي ايجاد ہے جس پر ہم يہ جملہ بولے بغير نہيں رہ سکتے۔

انٹرنيٹ نے تو ہماري دنيا ہي بدل کے رکھ دي ہے۔ کہاں ہم لندن کے عزيزوں کے خطوط کا انتظار مہينوں کيا کرتے تھے ، کہاں بين الاقوامي خبر کے آنے میں گھنٹے لگا کرتے تھے۔ يہ ابھي کل کي بات ہے کہ ہم تار گھر ٹيليگرام دينے جايا کرتے تھے،  ريڈيو کو کانوں کے ساتھ لگا کر گھنٹوں کمنٹري سنا کرتے تھے، دوست احباب کو خط لکھ کر جواب کا انتظار کيا کرتے تھے۔ ريڈيو والوں کو پوسٹ کارڈ پر گانوں کي فرمائش لکھ کر بھيجا کرتے تھے۔ انگليوں پر حساب لگايا کرتے تھے۔ پہلے پہل جب دوسرے ملک ميں ہاکي کا ميچ ہوا کرتا تھا تو اس کي ريکارڈنگ پاکستان آنے ميں دن لگ جايا کرتے تھے۔

ليکن اب زمانہ بدل گيا ہے۔ ہماري موجودہ نسل نے چند سالوں ميں وہ کچھ پاليا ہے جو پچھلي نسلوں کو پانے ميں سينکڑوں سال لگے۔ گاڑي ايجاد ہوئي اور پھر اس کو مکمل ہونے میں آدھي صدي لگ گئ۔ جہازوں کي ترقي کا سفر بھي صدي پر محيط ہے۔ مگر کمپيوٹر، انٹرنيٹ اور موبائل فون نے تو صرف دس سال ميں وہ ترقي کي ہے کہ سبحان تيري قدرت کہے بغير چارہ نہيں۔

اب دنيا کے کسي بھي حصے میں حادثہ ہو جاۓ آپ کو منٹوں ميں خبر مل جاتي ہے۔ اب آپ دنيا کے دوسرے کونے ميں صرف آدھے دن ميں جاسکتے ہيں۔ احباب کو براہِ راست وڈيو فون پر بات کرتا ديکھ سکتے ہيں۔ اپنے خيالات سے ساري دنيا کو آگاہ کرسکتے ہيں۔ ادھر آپ نے اپنا صفحہ اپ لوڈ کيا نہيں کہ ادھر دنيا کے دوسرے کونے ميں کسي نے اسے پڑھنا بھي شروع کر ديا۔ اب تو تلاش کے انجنوں نے کام اور آسان کرديا ہے۔ آپ کوئي بھي لفظ لکھيں آپ کو اس کي موجودگي ہزاروں سائٹوں پر مل جاۓ گي۔

ہم اپني سائٹ کي سٹيٹسٹکس اکثر ديکھتے ہيں اور حيراني کے مارے سبحان تيري قدرت کہنے لگتے ہيں جب معلوم ہوتا ہے کہ اگر ادھر ہمارا صفحہ پاکستان ميں پڑھا جارہا ہے تو ادھر جرمني ميں۔ ادھر امريکہ میں تو ادھر آسٹريليا ميں۔ يعني آپ کي سائٹ آن لائن آتے ہي دنيا کے ہر کونے میں پڑھي جانے لگتي ہے۔

پندرہ بيس سال پہلے يہ کہاں ممکن تھا کہ ہم دنيا کے مختلف کونوں ميں بيٹھے اردو کے حوالے سے ايک کميونٹي بن جائيں گے۔ اب خاور صاحب اگر پيرس سے لکھ رہے ہيں توشعيب صاحب دبئي سے، اجمل صاحب پاکستان سے، تو شہپر کينيڈا سے، شعيب صفدر پاکستان سے تو ايک اور شعيب نيو يارک سے۔

اتني ترقي اور آسانيوں کے باوجود اگر پاکستان پسسماندہ رہ گيا تو ہم سب اس کے قصور وار ہوں گے۔ اگر اب بھي گاؤں بجلي اور پاني کو ترستے رہے اور عوام تعليم سے محروم رہے تو ہم سے بڑا بدقسمت دنيا ميں کوئي نہ ہوگا۔

اب جب کہ يورپ اور امريکہ ميں  اکثريت کے ہاں موبائل فون اور کمپيوٹر ہے مگر ہم اب بھي صرف اپنا پيٹ بھرنے ميں لگے ہوۓ ہيں۔ ہميں چيني ذخيرہ کرکے منافع کمانے سے ہي فرصت نہيں ہے ہم عوام کو بنيادي ضروريات کيسے مہيا کريں گے۔

ہميں سو فيصد يقين ہے کہ ايک دن جب پاکستان کي اکثريت تعليم کے زيور سے آراستہ ہوجاۓ گي تب ہم اپنے حقوق کي کامياب جنگ لڑيں گے۔ اس کے بعد نہ کوئي ذخيرہ اندوزي کر سکے گا اور نہ کسي کا حق مار پاۓ گا۔ وہ دن کب آتا ہے يہ ہم لوگوں پر منحصر ہے کہ ہم اپنے آپ کو کتني جلدي تعليم يافتہ بناتے ہيں۔  جس دن ہم نے يہ معرکہ سر کر ليا اس دن سب يک زبان ہوکر کہيں گے

سبحان تيري قدرت