سپريم کورٹ نے فيصلہ ديا ہے کہ سٹيل مل کي نجکاري ميں گھپلا ہوا ہے اور اس سودے کو معطل  بھي کر ديا ہے ۔ اس فيصلے ميں سپريم کورٹ نے يہ بھي کہا ہے کہ يہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے  سپرد کيا جاۓ ۔ اب چونکہ يہ مشترکہ مفادات کونسل متحرک نہيں تھي اسلۓ حکومت نے سپريم کورٹ کے فيصلے کے مطابق اسے دوبارہ متحرک کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔

کہتے ہيں کہ جوپکڑا جاۓ وہ چور ہوتا ہے اور چور جس دن پکڑا جاۓ اس پر اس سے پہلے والي چورياں بھي ڈال دي جاتي ہيں۔ اکثر ايسا ہوتا ہے کہ وہي چور کئ وارداتوں ميں ملوث پايا جاتاا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ايک روائيت يہ بھي ہے کہ اس طرح کے چور پکڑنے کي خبر تو بہت بڑي ہوتي ہے مگر اس کے بعد اس کو سزا ملي يا نہيں اس کا کسي کو پتہ نہيں چلتا۔

يہي چور والا قانون حکومت کي نجکاري سکيم پر لاگو ہوتا ہے- يعني اگر سٹيل مل کي نجکاري ميں گھپلا ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پي ٹي سي ايل اور کے اي ايس سي کي نجکاري ميں بھي گھپلا ہوا ہوگا اور اس سے قبل جو دو سونجکارياں ہو چکي ہيں ان ميں اگر چوتھا حصہ بھي چور کے کھاتے میں ڈال ديا جاۓ تب بھي حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہو گا۔

مگر حکومت ہے کہ چہ جائيکہ اس فيصلے کے بعد اپنا محاسبہ کرے اور ذمہ دار لوگوں کو پکڑ کر سزا دے اس نے سپريم کورٹ کے فيصلے کو بھي عدالتوں کي آزادي قرار ديا ہے اور اس کريڈٹ پر بھي اپنا ہاتھ صاف کر ليا ہے۔

اور بقول عطاالحق قاسمي کے يہ سب خرابياں اسي وجہ سے ہورہي ہيں کہ حکومت صدر مشرف نہيں بلکہ ايک سويلين وزيرِ اعظم چلا رہے ہيں۔ يہ مفروضہ انہوں نے صدر کے اس بيان سے گھڑا ہے کہ حکومت کا انتظام ان کے نہيں بلکہ وزيرِ اعظم کے ہاتھوں ميں ہے۔ عطاالحق قاسمي کا کالم اس لنک کو کلک کر کے پڑھئے۔

http://www.jang.com.pk/jang/jun2006-daily/25-06-2006/col5.htm

ہونا تو يہ چاہۓ تھا کہ حکومت سب سے پہلے ان لوگوں کو معطل کرتي جو سٹيل مل کي نجکاري ميں ملوث تھے بلکہ انہيں جيل بھيج ديتي اور ان پر سپيشل کورٹ ميں مقدمہ چلاتي۔ اسطرح ملک ميں حب الوطني کي روائت پڑتي اور چيني، پراپرٹي اور سٹاک ايکسچينج مافيا کے کان بھي کھڑے ہوجاتے۔

مگر جب حکومت ہے ہي ان ستونوں پر کھڑي تو پھر وہ ان پر ہاتھ ڈال کر اپني عمارت کو کمزور کيسے کرے گي۔ انتخابات کے زلزلے کي آمد آمد ہے اور زلزلے ميں تو حکومت کو زلزلہ پروف عمارتيں درکار ہيں اور حکومت سمجھتي ہے کہ يہ عمارتيں صرف مافيا گروپ ہي بنا کر دے سکتے ہيں عوام نہيں۔

ليکن ايک بات واضح ہوگئ ہے کہ حکومت کي ايمانداري پر ايک بہت بڑا داغ لگ گيا ہے اور اس داغ کو دھونے کيلۓ بہت بڑے فيصلے کرنے ہوں گے۔ اب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپني حب الوطني کو کيسے ثابت کرتي ہے۔

 ليکن يہ بات بھي واضح ہے کہ حکومت پر حب الوطني ثابت کرنےکيلۓ کسي طرف سے بھي کوئي دباؤ نہیں ہے۔ نہ حزبِ اختلاف ميں اتني جرأت ہے کہ وہ اس ايشو کو پکڑ کر حکومت کو مجبور کرے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو سزا ديں اور نہ ہي عوام ميں اتنا دم ہے کہ حکومت ان کے ڈر سے راہِ راست پر آجاۓ۔