آج ہماری کرکٹ ٹیم تاریخ میں پہلی بار سری لنکا کی سرزمین پر سری لنکا سے ٹیسٹ سیریز ہار گئی ہے۔ یہ وہی سری لنکا کی ٹیم ہے جسے ہم نے ٹونٹی ٹونٹی فائنل میں ابھی پچھلے ماہ ہرایا ہے۔ اس جیت کے ارمان بھی ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اسی ہفتے عجلت میں کرکٹ ٹیم کو سری لنکا روانہ کر دیا گیا۔ حالانکہ چاہیے تھا کہ ٹونٹی ٹونٹی کا جشن ایک ماہ تو منایا جاتا۔ کھلاڑی شاہد آفریدی کی طرح ایک دو ماہ آرام کرتے اور پھر کرکٹ کھیلنے نکلتے۔
ہمیشہ کی طرح پاکستان کی ٹیم پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کے محاورے پر پوری اترتے ہوئے اور پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں گلی ڈنڈے کی طرز پر اننگز کھیلتے ہوئے فٹا فٹ آؤٹ ہو گئی۔
اسی طرح آج ٹیم دوسری اننگز میں اچھی بھلی دو وکٹ پر پونے تین سو سے زیادہ رنز بنا چکی تھی مگر بعد میں اپنی نو وکٹیں تیس رنز پر گنوا کر پویلین لوٹ گئی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ٹیسٹ میچوں میں ٹونٹی ٹونٹی کے مقابلے میں ہمارے کھلاڑیوں نے بہت کم رنز کیوں بنائے۔ ہم ابھی فواد عالم کے ریکارڈ کا جشن پوری طرح منا بھی نہیں پائے تھے کہ باقی کے آٹھ کھلاڑیوں کے دس سے بھی کم انفرادی سکور پر آؤٹ ہونے کا نوحہ پڑھنے لگے۔
اگر ان دو ٹیسٹ میچوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ہماری کرکٹ ٹیم سوائے چند ایک کھلاڑیوں کے ابھی بچہ ٹیم ہے۔ اس ٹیم میں کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کھلاڑیوں کی شدید کمی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی پچ پر دو کھلاڑی بڑا سکور کریں اور باقی نو کھلاڑی چالیس رنز بھی نہ بنا سکیں۔ اسی طرح اگر مخالف ٹیم سکور کر سکتی ہے تو پھر ہماری ٹیم کیوں نہیں۔ کہیں نہ کہیں تو خرابی ضرور ہے۔
ہم لوگوں میں بحیثیت قوم کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں اور یہ خرابیاں ہر کھلاڑی اپنی جیب میں ڈالے پھرتا ہے۔ انہی خرابیوں نے پہلے ہاکی کا بیڑہ غرق کیا اور اب کرکٹ کو تباہ کر رہی ہیں۔
سب سے بڑی خرابی ہماری اجتماعی کوشش کی بجائے انفرادی کوشش کی لگن ہے۔ اس کی وجہ دولت اور شہرت کا حصول ہے۔ اسے ختم کرنے کیلیے ہمیں انفرادی کوشش پر انعامات کم اور اجتماعی کوشش پر زیادہ دینے چاہئیں۔
اقربا پروری اور سفارش ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس کا تدارک سی ایس ایس کی طرز پر کھلاڑیوں کے انتخاب سے ہو سکتا ہے تا کہ کھلاڑی کی کھیل میں مہارت کیساتھ ساتھ دوسری صلاحیتوں کا بھی جائزہ لیا جا سکے۔ مثال کے طور پر کھلاڑی کو منتخب کرتے ہوئے اس کی ذہنی سوچ، عقل مندی، ڈسپلن، ٹیم ورک، جسمانی ورزش وغیرہ کے معیار کو ذہن میں رکھا جائے۔
یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم ستاروں کو ایک ہی جست میں چھو لینا چاہتے ہیں اور مہارت میں کمی کی بنا پر اکثر اس کوشش میں منہ کے بل گرتے ہیں۔ جب تک ہم کسی بھی شعبے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے اور ڈنگ ٹپاؤ طرز عمل کو نہیں چھوڑیں گے ہماری کارکردگی درست نہیں ہو گی۔