میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 1400برس قبل ہی پشین گوئیاں فرما چکے ہیں۔

 حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے اِس دین کی ابتدا نبوت و رحمت سے فرمائی پھر (دور نبوت کے بعد) خلافت و رحمت کا دور ہوگا، اُس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی، اُس کے بعد خالص آمریت، جبرو استبداد اور امت کے عمومی بگاڑ کا دور آئے گا، یہ لوگ زناکاری، شراب نوشی اور ریشمی لباس پہننے کو (خوشنما تاویلوں سے) حلال کرلیں گے اوراِس کے باوجوداُن کی مدد بھی ہوتی رہے گی اور اُنہیں رزق بھی ملتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے یعنی مرتے دم تک“…(ابو داؤد، بیہقی)۔

 پولیس کی کثرت سے متعلق حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ شافع یوم النشورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے کہ” آخری زمانے میں ایسے سپاہی ہوں گے جن پر صبح بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کی حالت میں آئے گی اور شام بھی پس تم اِن میں شامل ہونے سے بچو۔

اِسی طرح حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں ایک دیہاتی آیا اوراُس نے دریافت کیا کہ” قیامت کب آئے گی؟ “میرے سرکار نے فرمایا” جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو“ دیہاتی نے عرض کیا کہ” یا رسول اللہ ! امانت کا ضیاع کس طرح ہوگا؟“ سید الکونین نے ارشادفرمایا ”جب معاملات نااہلوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو“…(صحیح بخاری)۔

 نااہلوں کے اہل کہلائے جانے سے متعلق ایک اور مقام پر خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکا ہی دھوکا ہوگا، اُس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، بددیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت، رُوَیْبَضَہ (نا اہل لوگ) قوم کی طرف سے نمائندگی کریں گے “…عرض کیا گیا” رُوَیْبَضَہ سے کیا مراد ہے“فرمایا” وہ نااہل اور بے قیمت آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے“… (ابن ماجہ)۔

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ” آخری زمانے میں تمہارے ایسے حاکم ہوں گے جو مال (پانی کی طرح) بہائیں گے اورپھراُسے شمار بھی نہ کریں گے“…(صحیح مسلم)۔

 وفاداریاں تبدیل کرنے سے متعلق سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ”اُن تاریک فتنوں کی آمد سے پہلے پہلے نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی تہہ بہ تہہ تاریکوں کے مثل ہوں گے، آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر، یا شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافراور دنیا کے چند ٹکوں کے بدلے اپنا دین بیچتا پھرے گا“…(صحیح مسلم) ۔

سیدنا عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” آخری زمانے میں میری امت کو ارباب اقتدار کی جانب سے (دین کے معاملے میں) بہت سی دشواریاں پیش آئیں گی اُن کے وبال سے صرف تین قسم کے لوگ محفوظ رہیں گے…پہلا وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو ٹھیک ٹھیک پہچانا پھر اُس کی خاطر دل، زبان اور ہاتھ تینوں سے جہاد کیا اوریہ شخص تو اپنی تینوں پیش قدمیوں کی وجہ سے سب سے آگے نکل گیا…دوسرا وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا پھر زبان سے اُس کی تصدیق بھی کی یعنی برملا اعلان کیااورتیسرا وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا تو سہی مگر خاموش رہا …کسی کو عملِ خیر کرتے دیکھا تو اُس سے محبت کی اور کسی کو باطل پر عمل کرتے دیکھا تواُس سے دل میں بغض رکھا … یہ شخص اپنی محبت و عداوت کو پوشیدہ رکھنے کے باوجود بھی نجات کا مستحق ہوگا“…(بیہقی)۔

 قتل و غارت کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے بعد ایسا دور ہوگا جس میں علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنہ و فساد عام ہوگا“ صحابہ نے عرض کیا” یا رسول اللہ !فتنہ و فساد سے کیا مراد ہے؟“تو آپ نے فرمایا ”قتل“…(ترمذی) گم راہ لیڈروں کا اشارہ حضرت ثوبان کی اِس روایت میں ملتا ہے کہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ” میں اپنی امت پر گمراہ کن لیڈروں سے ڈرتا ہوں اوراُس وقت سے جب میری امت میں تلوار رکھی جائے گی تو وہ قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی“…(ابو داؤد)۔