دنیا کے چند مشکل کاموں میں ایک کام کسی مقصد کیلیے صاحب خرد کا جان و مال کی قربانی دینا ہوتا ہے۔ ہاں ان لوگوں کیلیے یہ کام مشکل نہیں ہے جن کی عقل جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہے۔ ان لوگوں کو آپ دہشت گرد، عاشق یا پھر سر پھرے کہ سکتے ہیں۔

آٹھ سال قبل صدر مشرف نے غیروں کی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو اس طرح ملوث کیا کہ اب اس جنگ سے پیچھا چھڑانا مشک ہو چکا ہے۔ پہلے پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے کیلیے طالبان کی حکومت ختم کرانے میں غیروں کی مدد کی۔ پھر غیروں کے حوصلے بڑھے اور انہوں نے پاکستان کے اندر ان سرپھروں کا تعاقب شروع کردیا۔ ان سرپھروں نےجب دیکھا کہ وہ ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کا کسی دوسری طاقت کی مدد کے بغیر مقابلہ نہیں کرسکتے تو انہوں نے ردعمل کے طور پر غیروں کیساتھ ساتھ ان کا ساتھ دینے والے مقامی اداروں اور افراد پر خودکش حملے شروع کردیے۔ پہلے یہ حملے شمالی علاقوں تک محدود تھے مگر اب ان کی تپش پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی محسوس کی جانے لگی ہے۔ ابھی آج ہی لاہور میں دو خودکش حملوں میں درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔

یاد رہے دنیا میں کسی مسئلے کے تصفیے کیلیے دو ہی راستے ہوتے ہیں، جنگ یا مذاکرات۔ بیوقوف طاقتور جو سخت دل ہوتے ہیں جنگ کا راستہ اپناتے ہیں اور وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جنگ دشمن کیساتھ ساتھ ان کا بھی بہت سارا نقصان کرے گی۔ جبکہ عقل مند طاقتور جو نرم دل ہوتے ہیں مذاکرات کا راستہ اپناتے ہیں اور انہی مذاکرات کی وجہ سے وہ اپنا نقصان کیے بغیر اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان جنگوں میں بیوقوف طاقتوروں نے پہلے جنگ سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کی مگر پھر آخرکار انہیں بھی دشمنوں سے مذاکرات کرنے پڑے۔ آخر کار عراق میں سنیوں کو مذاکرات کے ذریعے غیرملکی افواج نے اپنے ساتھ ملا کر اپنی کامیابی کی راہ آسان بنا لی ہے۔

پاکستان میں بھی اگر ردعمل کو روکنا ہے تو پھر ہمیں شمالی علاقوں میں بندوق کی بجائے مذاکرات کا ہتھیار استعمال کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو ردعمل کم کرنے کیلے یہ آگ بھڑکانے والے کو رخصت ہونا ہوگا اور اس کے بعد اس آگ میں شامل ادارے کے سربراہ کو اپنے ہی علاقے میں جنگ بندی کرنا ہوگی۔ اس کے بعد مذاکرات کی میز پر دہشت گردی کا حل نکالنا ہوگا۔ اس سے پہلے اگر قائداعظم  نے قبائلی علاقوں کو نہیں چھیڑا تھا تو اس کی کوئ خاص وجہ ہو گی۔ اس کے بعد جتنی حکومتوں نے بھی ان علاقوں میں گولی سے قبضہ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام رہیں اور انہیں مذاکرات ہی نے اس دلدل سے نکالا۔

کیا اس وقت ہمارے صرر محترم ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف یہ قربانی دینے کیلیے تیار ہیں؟ کیا وہ پاکستان کی خاطر صدارت سے مستعفی ہو سکتے ہیں؟ کیا فوج اپنی انا سے اوپر اٹھ کر کچھ فیصلے کرسکتی ہے؟ کیا فوج ان علاقوں سے واپس آسکتی ہے اور سول حکومت کو معاملات سلجھانے کے اختیارات دے سکتی ہے؟ اگر صدر مشرف اور فوج پاکستان کی بقا کی خاطر یہ قربانی دے دیں تو دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس دہشت گردی کا کوئی حل نہیں ہے۔

 اس استدلال کے مخالفین صرف یہی دلیل دیتے آئے ہیں کہ دہشت گردوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیئں اور ان کا صفایا کرنا چاہیے۔ لیکن یہ لوگ دہشت گردی کی اصل روٹ کاز جاننے کی کوشش نہیں کررہے۔ یہ بھی غیروں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں اور دہشت گردی کو طاقت سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو یاد ہونا چاہیے کہ آئر لینڈ میں پچاس سالہ دہشت گردی ٹونی بلیئر نے جنگ سے نہیں مذاکرات سے ختم کی ہے۔ اس کے برعکس جنگ کے ذریعے دہشت گردی ختم کرنے والا اسرائیل اب تک اس کا شکار چلا آ رہا ہے۔

صدر پرویز صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے نعرے “سب سے پہلے پاکستان” کی خاطر اب ملک کی جان بخش دیں۔ آرمی چیف جنرل کیانی کو بھی چاہیے کہ وہ پلاننگ روم میں بیٹھ کر اس بات پر ضرور غور کریں کہ دہشت گردی اگر طاقت کے ذریعے آٹھ سال میں ختم نہیں ہوسکی تو پھر کوئی دوسرا طریقہ اپنانا چاہیے اور دوسرا کامیاب طریقہ مذاکرات کا ہے۔