وزيرِ خارجہ خورشيد محمود قصوري کے بيان کے مطابق دولتِ مشترکہ کے موجودہ اجلاس ميں صدرِ پاکستان کي وردي کا موضوع بھي زيرِ بحث آيا اور ممبران نے اس خواہش کا اظہار کيا کہ وردي کا مسلہ ٢٠٠٧ تک حل ہو جانا چاہۓ يعني صدر کو اگلے انتجابات سے پہلے وردي اتار ديني چاہۓ۔
يہ وہي وردي ہے جس کو اتارنے کا وعدہ صدر نے بھرے بازار ميں يعني ٹي وي پر کيا اور پھر بعد ميں اس وعدے سے مکر گۓ۔ اس کي وجہ يہ بتائي گئ کہ چونکہ متحدہ مجلسِ عمل نے اپنے وعدوں کا پاس نہيں کيا اسلۓ صدر بھي اپنے وعدے سے منحرف ہونے کا حق رکھتے ہيں۔ حالانکہ مجلسِ عمل نے قوم سے ايسا کوئي وعدہ نہيں کيا تھا جس سے وہ منحرف ہوئي ہو۔ وعدہ تو صدر نے قوم سے کيا تھا اور ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس وعدے کو پورا کرتے۔ يہ تو ہمارے رہنماؤں کي عادت رہي ہے کہ وہ کسي بھي وعدے کا پاس رکھنے کے ذمہ دار نہيں ہوتے۔ اس سے پہلے صدر ضياالحق نے نوے دن ميں انتخابات کرانے کا وعدہ کيا تھا اور گيارہ سال وردي کے زور پر حکومت ميں رہے۔
يہ وہي وردي ہے جب ہمارے آقاؤں کو اس کي ضرورت نہ ہو تو اس کو بنياد بنا کر ہم پر پابندياں عائد کرديتے ہیں مگر جب انہيں اس کي ضرورت ہو تو پھر يہ ہمارا اندروني مسلہ قرار پاتا ہے۔ اب جبکہ اس وردي کي ضرورت پوري ہوتي نظر آرہي ہے تو اس کو اتارنے کي باتيں ہونے لگي ہيں۔ ہمارے لۓ وہ دن شرم سے پاني ميں ڈوب مرنے کا دن ہوگا جب ہم اپنوں کے کہنے پر نہيں بلکہ اپنے آقاؤں کے کہنے پر وردي اتاريں گے۔
اس کا صاف مطلب يہ ہے کہ يہ وردي قومي مفاد کيلۓ استعمال نہيں ہورہي بلکہ ہمارۓ آقاؤں کے مفادات پورے کرنے کيلۓ استعمال ہورہي ہے۔ کيا بات ہے ہماري حب الوطني کي کہ ہميں جو وردي سرحدوں کي حفاظت کيلۓ استعمال کرني چاہۓ وہ ہم اپنے عوام کا استحصال کرنے کيلۓ اور اپنے آقاؤں کے مفادات پورے کرنے کيلۓ استعمال کررہے ہيں۔
اے قوم کے محافظ تو زندہ باد اور تيري وردي پائيندہ پاد۔