جنگ کے کالم نگار حامد میر نے ایک ریکارڈ ساز بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے صوبہ سندھ کی گورنر شپ رکھ کر اسمبلی میں حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو سیاسی پارٹی صوبے میں حزب اختلاف میں ہو اسی کا آدمی گورنر بھی ہو۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے صدر زرداری نے پاکستان کی چیئرمین شپ اپنے پاس رکھ کر ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔ ایوب کا چیف مارشل لا اِیڈمنسٹریٹر اور صدر ایک ساتھ رہنے کا ریکارڈ تو کئی بار ٹوٹ چکا ہے بلکہ بھٹو پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو غیرفوجی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں۔ اس طرح کے بیہودہ ریکارڈ اتنے ہیں کہ انہیں گنتے گنتے رات ختم ہو جائے گی مگر ریکارڈ ختم نہیں ہوں گے۔

آرمی کا تعمیر شدہ اوورہیڈ کراچی میں گرا جس کی آج تک انکوائری مکمل نہیں ہو سکی اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔ پاکستان میں پچھلے سال کے سیلاب اور اس سے پہلے کے زلزلے میں جتنی غیرملکی امداد ملی وہ کہاں گئی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے احکامات کی حکم عدولی کے بھی ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ وہ کئی ہفتوں سے ایک صاحب کو تفتیشی افسر لگانا چاہ رہے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا مشترکہ ریکارڈ ہے کہ وفاق میں دونوں پارٹیاں حکومت اور حزب اختلاف میں ہیں مگر صوبہ پنجاب میں مشترکہ حکومت کر رہی ہیں۔ ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت پی پی پی کے وزیروں کو وزارتیں چھوڑنے کو کہتی ہے مگر وہ اب بھی وزیر ہیں۔

بجلی پانی اور گیس کی کمی کیخلاف کتنے احتجاج ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگنا بھی ایک ریکارڈ ہے۔مشرف دور کے ایک وزیرتعلیم نے قرآن کے سپاروں کی تعداد غلط بتا کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ابھی کل انجنیئرنگ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار انٹری ٹیسٹ کا پرچہ آوٹ ہونے کا ریکارڈ قائم ہوا ہے اور وہ بھی ایک جنرل ریٹائرڈ وائس چانسلر کے دور میں۔

پچھلے دس سالوں میں جتنے لوگ خفیہ ایجنسیوں نے غائب کئے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جاری ہے مگر قاتلوں کا نہ پکڑا جانا بھی ایک ریکارڈ ہے۔ مہنگائی کے ریکارڈ تو روز ٹوٹ رہے ہیں مگر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہونے کا ریکارڈ قائم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ریکارڈوں کا زمانہ ہے اگر ایم کیو ایم نے ایک اچھوتا ریکارڈ قائم کیا ہے تو کوئی تیر نہیں مارا۔