سیالکوٹ کے دو نوجوانوں کے سفاک قتل کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں سمیت پورے ملک کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ ہم نے ٹی وی لواحقین کی آہ و زاری سنی تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔ آفرین ہے مقتولوں کے ماں باپ پر جو اپنے ہوش و ہواس میں ہیں اور حکومت سے صرف اور صرف انصاف کی التجا کر رہے ہیں۔ گورنر، وزیراعلی پنجاب اور وزیرداخلہ لواحقین کے گھر فاتحہ کیلیے جا چکے ہیں۔ وزیراعلی کے خصوصی احکامات کی روشنی میں ملزمین پر مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں روزانہ کی بنیاد پر چلایا جائے گا اور جلد ہی مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے گا۔
ہم وزیراعلی سے یہ گزارش کریں گے کہ مجرموں کو پھانسی ریسکیو کی اسی ٹینکی پر دی جائے جس پر انہوں نے مقتولین کی لاشیں لٹکائی تھیں۔ ویسے آنکھ کے بدلے آنکھ کے اگر اسلامی اصول پر عمل کرتے ہوئے مجرموں کو بھی اسی جگہ لاٹھیوں اور پتھروں سے پھانسی دی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس طرح وہ عبرت کا نشان بھی بن جائیں گے اور آئندہ لوگ ایسا جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچا کریں گے۔
9 users commented in " انصاف ہو کر رہے گا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرا پاکستان آپ بھی اسی طرح سوچ رہے هیں جیسا که اس مشتعل هجوم نے سوچا تھا
سزاؤں میں انتہا پسندی ، کی سوچ هی تھی جس نے ان بچوں کو اس طرح سے مروایا
میں کل سے وھ ویڈیوں دیکھ کر بہت دکھی هوں کیونکه مجھے اپنا آپ نظر اتا ہے
مرنے والوں کی جگه پر
لیکن اسی ویڈیو کو دیکھنے سے کئی سوال ذہن میں اٹھے هیں
جن میں ایک یه بھی هے که ویڈیوں میں بڑے لڑکے کی لاش کے پیٹ پر سفید پٹکا نمامیں گولیوں کا کیا کام تھا اور اس عمر کے لڑکوں کے پاس گولیان خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے ائے ؟
اس ویڈیو میں مارتے هوئے گالیاں دیتے هوئے ایک لفظ چند بار کہتا ہے جس سے لگتا ہے که معاملے میں سکیس بھی شامل ہے
قانوں کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے
یه ایک افاقی اصول ہے لیکن جب پاکستان جیسے حالات بن جائیں تو ؟
شہباز شریف پر بھی تو ماروائے عدالت قتلوں کا الزام لگاتے هیں ناں جی لوگ ؟
وھ کیا تھے؟
اور اپ بھی اگر ایسی جگه هوں جہاں اپ کی نظروں کے سامنے، ڈاکو قتل کرکے بھاگتے هوئے پکڑے جائیں
اور مرنے والے کو اپ جانتے هیں
لیکن ڈاکوں کو نہیں جانتے هیں
تو اپ کا کیا رویه هو گا
کیا اپ ان کو پولیس کے حوالے کردیں گے ؟
یا کہ نام نہاد عوامی انصاف هونے دیں گے یا ان کی حمایت میں عوامی انصاف ہدف بننا پسند کریں گے؟
پولیس والوں نے لڑکوں کو پکڑنے کے باوجود ، عوام کے حوالے کیوں کیا؟
اب نے بھی پاکستان میں هی پرورش پائی هے
جب بھی لڑائی هو ،اس پاس کے کچھ ناں کچھ لوگ چھڑانے کے لیے ضرور اتے هیں
ان لڑکوں کو چھڑانے کے لیے کیوں کسی نے کوشش نہیں کی؟
ایک میچور سی آواز اتی هے
پٹرول ڈال کر آک کیوں نهیں لگاتے ؟
کیوں ؟
سبھی ان کے خلاف لوگ وهاں کھڑے تھے؟
مجھے معلوم ہے که یرے اس کومنٹ لکھنے پر بہت لوگ غصه کریں کے لیکن یاد رهے میں اس ظلم کی حمایت میں نہین لکھ رها هوں
صرف اس نظر سے دیکھ رها هوں که اگر میں جج هوتا تو؟
اور میں یه سمجھتا هیں که
پاکستان میں لوگوں کے مشتعل هوجانے کے پیچھے
پاکستان میں ورزشی ماحول کے ختم هوجانے کی وجه ہے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یک دم نہیں هوا کرتے
ہیی
آپ کا نطقہ نظر درست ہے اور ہماری پچھلی پوسٹ کی عکاسی کرتی ہے۔ یہاں تو ہم نے یہ لکھا ہے کہ مجرموں کی سزا کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تا کہ لوگ اس طرح کا جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔
کہيں يہ خدا کی طرف سے جماعت اسلامی کو پيغام تو نہيں کہ جيسا کرو گے ويسا بھروگے؟
اور اس واقعہ پہ لال مسجد کے حمايتی اتنا اچھل کود کيوں کررہے ہيں؟ آخرلال مسجد والوں نے بھی قانون کو ہاتھ ميں ليکر بيگناہوں کي جانيں ليں۔ وہ ٹھيک کيسے تھا اور يہ غلط کيسے ہوا؟
مجھے تو ہوتا نظر نہیں آرہا
دیکھیں خاور فرق ہے دو چیزوں میں
جب ریاست حرکت میں آئے اور قانون نافظ کرے
اور جب عوام حرکت میں آئیں اور قانون اپنے ہاتھوں میں لے لین
ریاست جب قانون نافط کرے گی اور مجرموں کو سزائیں دے گی اسکے لئے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے اور مجرم کو صرف اتنی ہی سزا دی جائے گی جتنا اسنے جرم کیا ہوگا۔ اب اگر سزاوں کو کھلے عام دیا جائے گا اور شریعت و قانون ک مطابق دیا جائے گا تو اس سے قانون کی حکمرانی پیدا ہوگی اور بہت سے لوگ جرائم خود چھوڑ دیں گے۔
جبکہ جب عوام قانون اپنے پاتھوں میں لیں گے تو وہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ہی ملزم پر توٹ پریں گے اور جرم سے کہیں زیادہ سزا دی جائے گی اور وہ بھی پورا مجمعہ مل کر دے گا، مجمع میں جتنے لوگ ہوں گے اتنی سزائیں دی جائیں گی۔ اس سے جرائم پیشہ لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اگلی دفعہ وہ واردات کرتے ہوئے زیادہ سخت گیر ہوں گے اور ممکن ہے کہ بدلہ لینے کے بارے میں بھی سوچیں۔ اسی طرح یہ رواج بڑھا تو لوگ اپنی دشمنیاں بھی نکالیں گے۔
جمال صاحب دل تو چاہ رہا ہے کہ آپکا کو ٹکا کے جواب دوں لیکن شاید فائدہ کوئی نہیں۔ خدا کیلئے کبھی کوئی بات مذہبی لوگوں کی مخالفت کے علاوہ بھی کرلیا کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ جیسوں کو مذہبی لوگوں سے عناد پر ہی “جنت“ ملے گی
جمال جیسے لوگوں کی یاوہ گوئی پہ پریشان مت ہوں۔ مرزا قادیان معلون و مردود کے چیلے جماعت اسلامی اور پاکستانی مسلمانوں سے اپنا وہ بغض نکال رہے ہیں جو مرزا غلام قادیان ملعون و مردود کے چیلے چانتوں کے کفر کا پردہ چاک کرنے پر انھٰن جماعت اسلامی و دیکگر مسلم جماعتوں اور پاکستانی مسلمانوں سے ہے۔
لعنت اللہ علی الکاذبین۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100823_silakot_cameraman.shtml
.سیالکوٹ: قتل کے چشم دید گواہ
علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
’سترہ برس کا لڑکا خاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا‘
سیالکوٹ میں دو نوجوان بھائیوں کی بھرے مجمع میں ہلاکت کی فوٹیج تیار کرنے والے کیمرہ مین بلال خان سے میں نے پوچھا کہ کیا ہلاکت کی فلم بندی ان دونوں لڑکوں کی جان بچانےسے اہم تھی؟
جواب ملا کہ’میں کر بھی کیا سکتا تھا‘۔
ٹی وی نیوز ون کے کیمرہ مین بلال خان کوئی پون گھنٹہ تک اس ہلاکت کی فلم بندی کرتے رہے تھے۔ یہ ویڈیو فوٹیج ہلکے پھلکے سنسر کے ساتھ ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئی اور اب یو ٹیوب پر بلا سنسر تمام تر المناکی کے ساتھ موجود ہے۔
بلال خان چھ برس سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ یہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ صحافی کی سوچ خبر سے آگے نہیں جاسکتی اور اسے مرتے ہوئے انسان کو بچانے سے زیادہ اس کی فوٹو بنانے کی فکر ہوتی ہے۔
ہم زیادہ سے زیادہ حکومتی انتظامیہ کو فون کر کے لڑکوں کی مدد کے لیے بلا سکتے تھے لیکن جب حکومت پولیس کی شکل میں خود موجود تھی اور وہ لوگ موجود ہونے کے باوجود تشدد نہیں روک رہے تھے تو ہم کس کو فون کر کے بلاتے؟
بلال خان
اگرچہ ایسا تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے لیکن بلال خان کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ سوال اٹھائے گئے ہیں۔
میں نے بھی ان سے پوچھا کہ وہ پون گھنٹے تک لڑکوں کے مرنے کے ’تماشے‘ کی فلم بندی کرتے رہے انہیں بچانے کے لیے کوشش کیوں نہیں کی؟ وہ خود سے نہ روکتے لیکن کم از کم فون پر اطلاعات دے کر تو ان کا بچاؤ کر سکتے تھے؟
بلال خان نے جواب دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ حکومتی انتظامیہ کو فون کر کے لڑکوں کی مدد کے لیے بلا سکتے تھے لیکن جب حکومت پولیس کی شکل میں خود موجود تھی اور وہ لوگ موجود ہونے کے باوجود تشدد نہیں روک رہے تھے تو وہ کس کو فون کر کے بلاتے؟
بلال خان کے نزدیک فون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا اس لیے وہ فلم بندی میں مصروف رہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ انہیں تشدد اور دھکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود پولیس اہلکار انہیں دھکے دیتے اور بار بار فلم بندی سے روکتے رہے لیکن چونکہ سب کی توجہ کا اصل مرکز لڑکوں پر ہونے والا تشدد تھا اس لیے وہ تمام تر دھکوں کے باوجود ہینڈی کیم (کیمرے) سے بیس سے پچیس منٹ کی فوٹیج بنانے میں کامیاب ہوئے۔
کافی لوگوں نے ہمیں روکا، تشدد کیا، دھکے دیئے لیکن یہ میرا فرض تھا کہ میں اگر موقع پر موجود ہوں تو اس ظلم کی فلم بندی کروں
بلال خان
کیمرہ مین نے کہا کہ ’کافی لوگوں نے ہمیں روکا، تشدد کیا، دھکے دیئے لیکن یہ میرا فرض تھا کہ میں اگر موقع پر موجود ہوں تو اس ظلم کی فلم بندی کروں۔‘
انہوں نے کہا کہ مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا اور بعد میں جان سے مارنے کی دھمکی دیکر فوٹیج ضائع کرنے کا بھی کہا گیا لیکن بلال خان کے بقول انہوں نے جان پر کھیل کر فوٹیج بنائی تھی اور وہ اسے نشر ہونےسے کیسے روک لیتے۔
’وہاں موجود پولیس والے اپنا فرض پورا نہیں کررہے تھے اگر میں بھی اپنے فرض سے غلفت برتتا تو اس ظلم کو سامنے کس طرح لایا جاسکتا تھا۔‘
بلال خان کے علاوہ دنیا ٹی وی چینل کے کیمرہ مین رپورٹر حافظ عمران بھی وہاں موجود تھے اور بلال خان کے بقول انہوں نے بھی عکس بند کی تھی لیکن بعد میں دونوں نے اپنی اپنی فوٹیج کو ملاکر ایڈیٹ کیا اور اپنے اپنے ٹی وی چینلوں کو جاری کردی۔
گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاؤڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیںبلال خان نے بتایا کہ جب وہ پہنچے تو ابھی دونوں لڑکے زندہ ہی تھے ان کے بقول چھوٹا لڑکا حافظ منیب تو تین چار منٹ کے اندر ہی مر چکا تھا جبکہ دوسرا پون گھنٹے تک زندہ رہا حتی کہ جب اسے الٹا لٹکایاگیا تو وہ تب بھی زندہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سترہ برس کا لڑکاخاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ بلال خان کے بقول اس نے الٹے لٹکنے کےدوران دم توڑا تھا اور بعد میں جب پولیس کے اعلیٰ افسروں کے آنے کے بعد ان کی لاشیں اتاری گئیں تو تب بھی ان کی بے حرمتی کی گئی اور لاشوں کو سہارا دیئے بغیر رسیاں کاٹ دی گئیں۔
مبصرین کا کہناہے کہ بات یہ نہیں کہ لڑکے ڈکیتی کرنے آئے تھے یا یہ کرکٹ کھیلنے کےدوران جھگڑا ہوا اصل بات یہ ہے گوجرانوالہ ریجن کی پولیس ملزموں کو سرعام سزادینے پر یقین رکھتی ہے۔
گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاؤڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلال خان کی بنائی ویڈیو پر شدید عوامی ردعمل نے حکومت کو کسی حد تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔گوجرانوالہ ریجن میں گزشتہ دو ڈھائی برس کےدوران ہونے والے اس طرح کے درجنوں واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہے لیکن وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کے کان پر جوں رینگی۔
اس بحث سے قطع نظر کہ اس ویڈیو کوکس حد تک سنسر کرنے کے بعد جاری کیا جاتا اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ اس فوٹیج کے منظر عام پر آنے کےبعد ہی لڑکوں کو ہلاک کرنے والوں اور ان کی حمایت کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوسکا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلال خان کی بنائی ویڈیو پر شدید عوامی ردعمل نے حکومت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
نتیجے میں ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی’ بڑھکوں‘ اور انکوائریاں بٹھانے کے علاوہ عملی اقدام یہ کہ حسب روایت نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔ان سے بڑے درجے کے ضلعی پولیس آفیسر کو معطل کیا اور ریجنل پولیس افسر کو ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرا عہدہ دے دیا گیا۔
خاورکھوکھر آپ سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ اپنی جنس زدہ زہنیت کو کبھی جنس سے باہر نکال کر بھی کچھ سوچ لیا کریں!!!!!!!!
Leave A Reply