نوائے وقت کی خبر کیمطابق آئی ایم ایف سے پاکستان نے 3٫2 ارب ڈالر کا مزید قرضہ منظور کرا لیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پاکستان آئی ایم ایف کا گیارہ ارب تیس کروڑ ڈالر کا مقروض ہو گیا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کئی بار دہائی دے چکے ہیں کہ اس قرضے سے کوئی ایسا پروجیکٹ شروع نہیں ہو رہا جو اپنی آمدنی سے قرض واپس کرنے کے قابل ہو سکے۔ بلکہ اس قرضے سے پاکستان پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کرے گا اور موجودہ مالی پروگرام یعنی حکومتی اخراجات میں معاون ثابت ہو گا۔
ہمیشہ کی طرح اس قرضے کے بدلے پاکستان نے آئی ایم ایف کی مزید ٹیکسز لگانے کی شرائط مان لی ہیں۔ ان شرائط کو عملی جامہ پہنانے کیلیے بجلی مہنگی ہو گی اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی لگایا جائے گا۔
اگر قرضہ لینے کی یہی رفتار رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اتنا دیوالیہ ہو جائے گا کہ مشرف دور میں بچ جانے والے قومی اثاثے بھی بیچنے پڑ جائیں گے اور ہر رکشے اور گاڑی کے پیچھے ایسی آہ و زاریاں دیکھنے کو ملیں گی۔
32 users commented in " پاکستان مزید مقروض ہو گیا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسلام پاکستان جی
اس ٹاپک پہ میں بھی لکھنے والی تھی آپ نے پہلے لکھ دیا
قرض کس لیے لیا ھے تاکہ غیر ملکی دوروں پہ شاہی خرچ کر سکیں ؟؟ مشرف کے وقت صرف آٹا مہنگا ھوا تھا اور اب ؟؟ پہلے لوگ دو وقت روٹی کھاتے تھے اب ایک وقت کے کھانے سے بھی گئے بجلی آئے نا آئے بل وقت پہ آتا ھے اور زیادہ آتا ھے
کیا تھا پاکستان اور کیا ھو گیا سب مگر مچھ ھیں امید کسی ایک سے بھی نہیں چاھے کوئ نام کا شریف ھو یا کوئ 10 نمبری
آپ کی آزاد عدلیہ کیا اصطبل بیچ کر سو رہی ہے
ایسی آزاد عدلیہ اور بیروکریسی کے ہی تو وسیع و عریض بنگلوں ، خانصاموں ، آیا ، مالی ، چاچے ، مامے ، گاڑیوں ،ڈرائیوروں اور پٹرول کے خرچے کاسوال ہے بابا۔
پاکستانی عوام جس پر بھی اعتماد کرتے ہیں دھوکہ کھاتے ہیں، سیاستدانوں کی بھوک پتا نہیں کب مٹنی ہے، پاکستانی عوام کا خون چوس چوس کر، ان کے جسم کا گوشت تک نوچنا چاہتے ہیں یہ لوگ، اور ہڈیاں تک چبا جانا چاہتے ہیں
جس طرح رکشہ ڈرائیور نے پیرِ لنڈن یا بھتہ خوروں کو مخاطب نہیں کیا بلکہ بڑے واضح طور پہ روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگانے والوں کو مخاطب کیا ہے جو پیپلزپارٹی اور زرداری ہیں۔
اب آپ اسے آزاد عدلیہ یا کسی اور سے زبردستی منسوب کریں تو یہ دیانتداری نہیں ہوگی۔ بلکہ بات کو گھما پھرا کر موضوع کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی میں نہ مانوں پہ لانا درست طریقہ نہیں۔ بہتر ہوتا اگر بغض معاویہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حب علی (کرم اللہ وجہہ) سے بھی کام لے لیا ہوتا۔
کسی نے سچ کہا ہے تعصب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔ متعصب کی آنکھ کا رنگ۔ہر وقت دکھ پیٹنے سے دکھ کم نہیں ہوا کرتے۔
اگر یہ ساری کارستانی صرف بیورو کریسی یا آزاد عدلیہ کی وجہ سے ہے تو ایک حکمران کے فرائض میں آتا ہے کہ وہ اصولِ حکمرانی کے تحت قوم (جسے یہ لوگ عوام اور اب رعایا سمجھنے لگے ہیں) کا بھلا سوچے، بھلا کرے۔ ورنہ وہ دنیا جنہیں ہم صبح شام کافر قرار دینے پہ اپنی ساری توانائی خرچ کر دیتے ہیں ان میں آج بھی اکثراسطرح کو واقعے اکثر پیش آئے ہیں، کہ وہ اپنی پوری پوری کابینہ کے ساتھ محض اسلئیے مستعفٰی ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کی امنگوں پہ پورا نہیں اتر پائے۔ اکا دکا وزیر بھی اکثر مستعفٰی ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ عالم ہے جسے جیب سے بندوق خرید کرگھر کی چوکیداری دی جاتی ہے وہی رات کی تاریکی گھر والوں کو اسی بندوق سے نکال باہر کرتا ہے اور خون چوسنے والی جونک کی طرح اگلی ایک دہائی قوم سے چمٹا رہتا ہے۔اور طبلے کی تھاپ پہ اپنی بھونڈی آواز میں خوشامدیوں کے جھرمٹ میں آپنے آپ کو راجہ اندر کمار سے کم نہیں سمجھتا۔ اور منافقت کی حد تو دیکھیں نعرہ ہوتا ہے سب سے پہلے پاکستان۔اور کہتے ہوئے گھن آتی ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ محض اپنے ذاتی تعصب کی وجہ سے اسے ہیرو بنائے پھرتے ہیں اور ایسے ڈکٹیٹر کے تلوے چاٹنے کو اپنا شیوہ بنائے پھرتے ہیں۔
اگر کسی کو دہاندلی یا غلطی سے ووٹ کی صورت میں یہ قومی اقتدار کی امانت سونپ دی جائے تو وہ بھی پھر اقتدار سے یوں چمٹ جاتا ہے جیسے پاکستان اس کے باوا جی کی جاگیر ہو۔ کہ خدا نخواستہ پکستان رہے نہ ہے مگر مردار خوروں کا اقتدار سلامت رہے۔
جب اہداف ذاتی اور گھناؤنے ہوں پاکستان کے نام پہ قرضہ اور خیرات لے کر اپنے اللے تللے پورے کرنے ہوں تو وہ خیرات اور قرضہ بھلے کہیں سے بھی ملے یہاں تو طبلہ بجنا چاہئیے۔ اور بھونڈی آواز میں بھانڈوں کی طرح ریں ریں ہوتی رہنی چاھئیے ، یہ طبلہ امریکہ کے کسی فلیٹ یا کلب میں بھی بج سکتا ہے یا اسلام آباد کی اے سی کی یخ راتوں میں بھی ۔ جب اقتدار سے دم پکڑ کر کھینچے گئے نکالے گئے تو برطانیہ کے کسی مہنگے علاقے میں آرام سے رہیں گے اور پوری دنیا میں اپنی بنائی جائیداد اور بھرے بینک ہیں ۔ پھر بھلا روٹی کپڑا مکان اور عوام کس باغ کی مولی ہیں ۔ کونسا آئی ایم ایف نے کسی کو ذاتی طور پہ قرضہ دیا ہے انہوں نے پاکستان کو دیا ہے ۔ پاکستان جانے اور پاکستانی عوام ۔
جاوید صاحب
اب آپ نے بہتر جواب دیا اچھا لگا
اگر آپ یہ بات کبھی سمجھ جائیں کہ سارے کام پیسہ کیلیے یہ لوگ نہیں کرتے تو سمجھنا بھی آسان ہوگا اور سمجھانا بھی
انسان کے درمیان سب سے اصل کشمکش اپنے اپنے دین کیلئے ہے
ہر انسان کا دین ہوتا ہے
باطل لوگوں خۃ جتنی خوشی حق اور اہل حق کو مٹانے سے ہوتی جیب بھرنے سے نہیں ہوتی
اپنے اپنے دین سے لوگوں کی اپنی قوم بن جاتی ہے اسی کیلئے ان کا جینا مرنا ہوتا ہے
بے شک باطل کے ماننے والے زیادہ ہیں اور انکی قوم بھی بڑی ہے ان کا ہر آدمی اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے
کیوں کہ ایمان کی طاقت سے باطل مٹتا چلا جاتا ہے اسی لئے شیطان نے باطل پرستوں کو کبھی حق پرست کا نام دے کر آگے کیا کبھی مرتدوں کہ مسلمان دکھا بتلا کر صدر بنوا دیا اگر یہ دھوکا دہی نہ ہو تو اتنی تعداد کے باوجود اہل باطل کچھ نہیں بس ذلت یہاں بھی وہاں بھی
کل 2 احادیث سنیں، یعنی یا دہانی ہوئی اگلے تبصرہ میں اہل ایمان کیلیئے بیان کریں گے انشاءاللہ
گوندل صاحب سوال جو اور جواب چنا کرنا چھوڑ دیں،بات آپ سمجھتے نہیں اور شروع ہوجاتے ہیں ارے بھائی میں تو صرف اتنا کہ رہا ہوں کہ جسٹس صاحب سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیتے، ایک پٹرول پر لیا تھا وہ بھی زرداری نے آرڈینینس لگا کر ضائع کردیا اگر ایسی عدلیہ ازاد ہوئی ہے تو بھئی ہم تو بھر پائے اس آزاد عدلیہ سے اس سے بھلا کب عوام کو انصاف ملے گا اب بات آئی سمجھ میں یا ہجے کر کے بتاؤں 🙂
ابھی کل ہی کی بات ہے، ایک جگہ پڑھا تھا کہ ہر پاکستانی چوبیس ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ گو کہ بڑے لوگوں کی نظر میں چوبیس ہزار کی رقم ادا کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا چوبیس ہزار لکھنا۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں ایسے پاکستانی بھی موجود ہیں جو چوبیس ہزار کی رقم دیکھنے تک کو ترستے ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں کہ جن پر ‘آئی ایم ایف‘ سے لیے جانے والے قرضہ کا ایک قطرہ تک نہیں پڑتا۔ اور جو ان قرضوں سے فیضیاب ہوتے ہیں وہ اتنے بڑے دل کے مالک ہیں کہ ‘چھوٹے موٹے‘ قرضہ لے کر بھول جانا تو ان کی عادت مبارکہ میں سے ہوگیا ہے۔
عبداللہ بھائی! بات صرف اتنی سی ہے کہ سیاستدان عوامی ووٹوں سے آتے ہیں، اور عوامی گالیوں سے جاتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے یہاں کوئی پارٹی لیڈر اپنے باپ کی موت پر سیاست کرتا ہے تو کوئی اپنی بیوی کے جنازہ پر۔ کوئی آمریت کے خلاف ہوکر لوگوں کو الو بناتا ہے تو کوئی قومیت کی بنیاد پر قوم کو بیوقوف بناتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں سیاست نہیں ہوتی ‘سیاہ ست‘ ہوتی ہے۔
اس کے برعکس، عدالتی کاروائی قانون و آئین کے دائرے میں ہوتی ہے، جس کا ایک خاص ضابطہ اخلاق ہوتا ہے۔ عدلیہ کو ایک مخصوص دائرے کے اندر رہتے ہوئے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ عدالتیں اس قانون پر عمل کرتی ہیں جو ہمارے اور آپ کے چنیدہ اراکین قومی اسمبلی میں بناتے ہیں۔
غرض یہ ہے کہ عدالتیں ہر ایک کام میں ٹانگ نہیں اڑاسکتیں۔ کیوں کہ وہ سیاست دانوں کی طرح مادر پدر آزاد نہیں۔ اور نہ ہی ان میں اخلاقی قدر کی کمی ہے۔
ارے پاکستانی بھای،
ملاحظہ فرمایں، پورن 101
http://ejang.jang.com.pk/8-11-2009/pic.asp?picname=11_21.gif
احمد بھائی!
پتہ نہیں کیوں،ایک بات میرے ذہن میں اکثر آتی ہے۔ کہ دنیا کی آبادی دو بڑے طبقوں میں تقسیم ہوتی جارہی ہے۔ ایک وہ ہیں جو حق پہ یقین رکھتے ہیں اور دوسرے باطل پہ۔
لگتا یوں ہے کہ شیطان وقتی طور پہ ہر طرف اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ اور انسانیت سے لوگوں کا اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔ مادیت نے لوگوں کی آنکھیں چکا چوند کر دی ہیں۔ مال و دولت اور جاہ و حشمت کے شیطانی جذبوں سے لوگ خیرہ ہوئے پھرتے ہیں۔
مگر جب تک اس دنیا میں چند لوگ ھی کیوں نہ ہوں جو شیطان پہ لعنت بیجھتے رہیں اور نیکی کریں اور نیکی کرنے کی تلقین کرتے رہیں گے تب تک شیطان اپنی چالوں میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
اخلاق۔ حسنہ کردار ۔ انسانیت یہ سب چیزیں غیر مسلم لوگوں میں کسی حد تک ابھی ہیں ہیں مگر ہم پاکستانی مسلمان ان سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ ایک مسلمان پہ اللہ سبحان و تعالٰی کے احکامات لازم اور عبادت یعنی نماز روزہ زکواۃ حج وغیرہ فرض تو ہیں ہی اور انہین ادا کرنے پہ قدرت رکھنے والوں کو اس مفر کسی صورت نہیں۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ان سب احکامات کے بجالانے کے باوجود انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک اسکی ہر بات، ہر کام، اسکا اٹھنا بیٹھنا مرنا جینا دو صورتوں میں تقسیم ہے ۔ ایک حلال دوسرا حرام۔ جس نے اپنے آپ کواپنی پوری زندگی حلال کی حدود میں رکھا وہی مسلمان کہلائے جانے کا اصل حقدار ہے ہیں اور جنہوں نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی، ایک زرہ بھی حرام سے کشید کیا ہے۔ وہ مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں۔
جنہوں نے زندگی کا کوئی لمحہ بھی، ایک زرہ بھی حرام سے کشید کیا ہے۔ وہ مسلمان کہلائے جانے کے حقدار نہیں۔ مقصد یہ ہے وہ شیطان کے چیلے ثابت ہوئے
عابد صاحب آپ اپنی عبادت بس اپنے تک ہی رکھیں آگے پھیلا کر ثواب دارین حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں 🙁
اسد بھائی جو آپ نے کہا وہ ہم نے مانا پر پھر کوئی مجھ کم عقل کو یہ بتائے کہ کل تک جسٹس اور ان کے حواری جو یہ تقریریں کرتے پھررہے تھے کہ عدالتیں بحال ہوگئیں(یا ان کے مطابق آزاد ہوگئیں) تو ہر شخص کو انصاف ملے گا دوائیں ملیں گی روزگار ملے گا مہنگائی اور لوڈشیڈنگ سے نجات ملے گی،تو آخر کیسے ؟
جب عدالتوں نے سیاست دانوں کے بنائے ہوے قوانین کو ہی فالو کرنا ہے چاہے وہ جائز ہوں یا ناجائز تو اس ساری ایکسر سائز کا مقصد آخر کیا تھا جسٹس اور اس کے ساتھیوں کو ان کے عہدے واپس دلوانا نواز اور شہباز کے سارے کیس ختم کروانا اور بس واقعی نعمان نے سچ لکھا ہے کہ صرف ایک غریب خاندان کو جسٹس صاحب انصاف دلوا پائے ہیں اور بس۔۔۔۔۔۔۔،آگے راوی چین ہی چین لکھتا ہے !
اسد بھائی آپکی یہ بات قابل بحث ہے کہ عدالتیں مادر پدر آزاد نہیں اور نہ ہی ان میں اخلاقی قدر کی کمی ہے،کیا واقعی ایسا ہے تو پھر لوگ یہ سوال کیوں کرتے ہیں کہ جج خریدو گے یا وکیل ؟
بھائی میرے یوٹوپیا سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں سانس لین تو گھٹن ظلم اور نا انصافی آپ کا جینا دوبھر نہ کردے تو مجھ سے کہیئے گا،
ہیں تنگ بہت بندئے مزدور کے اوقات!
۔۔عبداللہ آپ نے لکھا میں تو صرف اتنا کہ رہا ہوں کہ جسٹس صاحب سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیتے، ایک پٹرول پر لیا تھا وہ بھی زرداری نے آرڈینینس لگا کر ضائع کردیا اگر ایسی عدلیہ ازاد ہوئی ہے تو بھئی ہم تو بھر پائے اس آزاد عدلیہ سے اس سے بھلا کب عوام کو انصاف ملے گا اب بات آئی سمجھ میں یا ہجے کر کے بتاؤں۔۔
عبداللہ بھائی یہ میرا بلاگ نہیں یہ افضل صاحب کا بلاگ ہے یہ نہ ہو میری رائے اور آپ کے ارشاداتِ عالیہ دونوں ہی ایک کی دبانے سے حذف کر دئیے جائیں۔ سوال تھا کہ پاکستان مقروض ہوتا جارہا ہے ۔ مگر آپ کو دوسروں کو زچ کرنے کی پرانی عادت ہے۔ اسلئیے ازراہ کرم سوال جواب کے لئیے آپ کوئی اپنا فورم قائم کریں ۔ انشاءاللہ آپ کے سولوں کے وہ جوابات دونگا کہ یا تو آپ کانوں کو ہاتھ لگا کر وہ بلاگ یا فورم بند کر دیں گے ، یا پھر مجھے اور میرے جیسی اکثریت جو پیرِلنڈن کی بدمعاشیوں اور مرثیے کہنے والوں کی طرز پہ تقریر کرنے والے “بھائی“ کی حقیقت کا پول کھولنے سے باز نہیں آتے جسی کی اصل تکلیف ہے آپ کو ۔ تو آپ کے قائم کردہ اس بلاگ پہ یا تو آپ ہم سب کو بین کر دیں گے یا ہمارے تبصرے ڈیلیٹ کر دیں گے۔
آپ کو پتہ ہے کہ موضوع سے ہٹ کر آپ کی بدزبانی کی وجہ سے کون کون سے بلاگ پہ آپ پہ پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اور جہاں پابندی نہین لگائی گئی وہاں سب ملکر جو عزت افزائی آپ کی کرتے ہیں وہ بھی
آپ جانتے ہیں مگر بد کلامی اور ایک گھسے پٹے بھتہ خور کی حمایت کے سوا یا اسے بھتہ خور کہنے والوں کے خلاف ھذیان کہنا آپ کی عادت یا مجبوری ہے۔ اس سے آپ باز نہیں آئے۔ یہ افضل صاحب کی اعلٰی ظرفی ہے کہ آپ کی اوت پٹانگ یہاں برداشت کرتے ہیں۔ اور سب رائے دینے والوں کو جو آپ کی مرضی کے مطابق نہ ہو انہیں گاہے گاہے بے مقصد اور موضوع سے ہٹ کر فضول بحث میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلئیے گزارش ہے کہ آپ اپنی شناخت ظاہر کرتے ہوئے ایک بلاگ بنائیں ۔ اور سوال کریں ۔ایسے جواب سنیں گے کہ طبعیت صاف ہوجائے گی۔
اب آتے ہیں چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی طرف۔ میں جاوید گوندل چونکہ عدالت عالیہ سپریم کورٹ کا رجسٹرار نہیں ہوں نہ مستقبل میں بننے کا ارادہ ہے اور نہ ہی یار لوگوں میں کسی نے مجھے بنانے کی خواہش کی ہے تو میری طرف سے آپ کو عام اجازت ہے کہ آپ یہ سوال خود چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب سے کریں میں چونکہ اس وقت پاکستان سے باہر ہوں ایک سوال میرا بھی کی جئیے گا آخر کراچی میں کب تک کراچی کے رزیل لوگوں کی طرف سے شریف لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری رہے گی۔ آخر کب تک پورے کراچی کو بشمول اہل اردو کو گنتی کے چند غنڈے پیر لنڈن کے نام پہ یرغمال بنائے رکھے گے۔ آخر کب تک جن لوگوں کا غم بھائی کو کھا گیا ہے وہ بھائی کب تک اپنے بھائی بندوں کو خون میں نہلا کر اپنی اذیت پسندی کو تسکین دیتا رہے گا ۔ آخر کب تک لوگوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں بوری میں بند ملتی رہیں گی۔ آخر کب تک کراچی اس مافیا کارٹیل کے ہاتوں یرغمال بنا رہے گا۔ آخر کب تک اور چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کب اس پہ سوموٹو ایکشن لیں گے ۔ امید ہے آپ یہ سوال ضرور کریں گے ۔
اب آپ کے تمام سوالات کے جواب آپ کے بلاگ پہ ہی دئیے جائیں گے ۔ تاکہ آپکی طبعیت ٹھنڈی ہو اور خلق خدا کو سکون ملے۔
تھوڑے لکھے کو زیادہ جانتے ہوئے ، امید ہے آپ جواب آں غزل جاری نہیں کریں گے۔
😀
گوندل صاحب کیونکہ آپ پاکستان میں نہیں رہتے اس لیئے اپ شائد جانتے نہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور آپ جس خریدے ہوئے میڈیا کی داستانیں سنایا کرتے ہیں وہ کب کا اپنا اثر کھو چکی ہیں یقین نہ ائے تو کراچی آ کر دیکھ لیجیئے گا آپ کی انکھوں کے ساتھ ساتھ آپ کی عقل پر لگے تعصب کے تالے نہ کھل جائیں تو میرا نام بدل کر آپ جو دل چاہے رکھ لیجیئے گا،ویسے اپ کا تپنا اس بات کا ثبوت ہے کہ میری باتیں تیر کی طرح اپ کے آر پار ہوگئی ہیں
باقی انیقہ بی بی کو تو اپ صبر اور تحمل کی تلقین کیا کرتے ہین مگر تلقین شاہ صاحب آپ کا وہ حال لگ رہا ہےکہ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت،
میرے لیئے آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ،افضل صاحب سمیت تمام لوگوں کو میری طرف سے کھلی اجازت ہے کہ وہ جب چاہین مجھے بلاگ کردین مگر میں جھوٹ کے پردے فاش کرتا رہوں گا چاہے اپ اسے بدزبانی کہیں یا بد کلامی سمجھے آپ!
میں اپنا بلاگ بناؤں نہ بناؤں یہ میرا زاتی مسئلہ ہے آپ بھی تو دوسروں کے بلاگ کو اپنی جاگیر سمجھ کر گز گز بھر لمبے تبصرے فرماتے ہیں جس مین کام کی بات بمشکل ایک دو ہی ہوتی ہین باقی نری لن ترانیاں!
میرے سوالون کے جواب اپ کے پاس ہیں ہی نہیں اور ہیں بھی تو آپ کو اپنی رگ دبتی نظر اتی ہے اسی لیئے اپ اس ظرح کی ائیں بائیں شائیں کیا کرتے ہیں جب ہر شخص کو ہر شخص پر ہر طرح کا گند اچھالنے کی اجازت ہے تو میرے سچ لکھنے پر اتنی مرچیں کیوں،اور اس بات کا خیال رہے کہ میں صرف بدتمیزی کا جواب ہی بدتمیزی سے دیتا ہوں
گوندل صاحب۔
آپ سب کو برا بھلا کہتے ہو تو نوازے کے کرتوت کیوں بھول جاتے ہو، اسطرح آپ اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت نہیں کرسکتے ہو۔
جسکے مدینے کے 7سٹار ہوٹلو میں شئیرز ہوں، جو جدہ میں سٹیل مل لگائے مگر وطن پرست اتنا ہو کہ اکثریت فلیپینی ملازموں کی رکھے۔ جس کی بیوی نواسے کی ولادت پر 2 ملین ریال دے اور ذلزلہ ذدگان کے لیے (آپ کو تو معلوم ہی ہوگا)۔
بہت لمبی لسٹ ہے اسلیے جب برا کہنا ہوتا ہے تو تعصب کی عینک اتار کہ کہنا چاہئے، اس گلوبل دنیا میں لوگ اب ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
میں اس یا کسی بھی حکومت کی عیاشیوں کا کبھی حامی نہیں ہوسکتا ہوں، کیونکہ میں نے اپنی آنکھوں سے اس وطن کے بچوں کو کوڑے میں خوراک تلاش کرتے اور کھاتے دیکھا ہے اور دیکھتا ہوں۔ میرا بس نہیں چلتا ۔۔۔۔ ان حرام خوروں کی جگہ ان کو بٹھاؤں اور پھر پوچھوں کیسا لگا۔
عبداللہ بھائی! میں پھر عرض کرنا چاہوں گا کہ چیف جسٹس سمیت ہر جج اور عدالت کا ایک مخصوص دائرہ ہوتا ہے۔ لاہور کے چیف جسٹس کی وہ حیثیت کراچی میں نہیں ہوتی جو کہ لاہور میں ہوتی ہے۔ عدلیہ کا دراصل کام تو انصاف فراہم کرنا ہے جس سے ہر ایک شعبہ جڑا ہوا ہے۔ اور ہر شعبوں میں موجود گند کو صاف کرنا اکیلے چیف جسٹس کے بس کا کام بھی نہیں ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں سے عوام کو سہولت ضرور حاصل ہوتی ہیں، پھر بھی مملک کے دیگر شعبوں کی ذمہ داری تو اصل میں حکمران سیاست دانوں ہی کی ہے نا کہ عدلیہ کی۔
ہر معاملہ میں یہ کہہ دینا “ آپ کی آزاد عدلیہ اصطبل بیچ کر سو رہی ہے“ انصاف نہیں۔ جو کام جس کے ذمہ ہے آپ اسے ہی ذمہ دار کہیں نہ کہ گھر میں پانی اور بجلی نا ہونے کی ذمہ داری چیف جسٹس یا عدلیہ پر ڈالیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ چیف جسٹس کا نہیں، موجودہ صدر کا نعرہ تھا۔ لہٰذا اس کی بابت انہین سے پوچھا جائے تو بہتر ہوگا۔ ہاں! انصاف کی بابت عدلیہ سے ضرور بالضرور پوچھ گچھ ہوسکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔
رہی بات “خریدنے“ کی تو عبداللہ بھائی! یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دیگر شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی کرپشن موجود ہے۔ لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ریکارڈ کرپشن کرنے والے جج نہیبں سیاست دان ہوتے ہیں۔ آج تک کسی ٹین پرسنٹ جج کا وجود نہیں، لیکن بہت سے سیاست دان اب ٹین پرسنٹ سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ آئین میں جو سترہ ترمیمیں ہوئی وہ کسی جج نے نہیں کیں۔ پاکستان سے بے گناہ لوگوں کو اٹھا اٹھا کر امریکا کو بیچنے والا بھی کوئی جج نہیں تھا۔ اور نا ہی بارہ مئی کو کسی وکیل یا جج نے گولی چلائی۔
پاکستان کی موجودہ خراب صورتحال کی ذمہ داری تمام پاکستانیوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ کسی پر کم تو کسی پر زیادہ۔ اب ہمیں یہ طے کرنا ہے اس میں میرا اور آپ کا کتنا حصہ ہے؟
“گز بھر تبصرہ کی معذرت“ 🙂
عبداللہ بھائی! میں پھر عرض کرنا چاہوں گا کہ چیف جسٹس سمیت ہر جج اور عدالت کا ایک مخصوص دائرہ ہوتا ہے۔ لاہور کے چیف جسٹس کی وہ حیثیت کراچی میں نہیں ہوتی جو کہ لاہور میں ہوتی ہے۔ عدلیہ کا دراصل کام تو انصاف فراہم کرنا ہے جس سے ہر ایک شعبہ جڑا ہوا ہے۔ اور ہر شعبوں میں موجود گند کو صاف کرنا اکیلے چیف جسٹس کے بس کا کام بھی نہیں ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں سے عوام کو سہولت ضرور حاصل ہوتی ہیں، پھر بھی مملک کے دیگر شعبوں کی ذمہ داری تو اصل میں حکمران سیاست دانوں ہی کی ہے نا کہ عدلیہ کی۔
یہ اسد کے تبصرے کا پیرا گراف ہے،اس پر بات کرتے ہیں تو اسد آپ مانتے ہیں کہ ہر شعبوں میں موجود گند کو صاف کرنا اکیلے چیف جسٹس کا کام نہیں تو پھر انہوں نے اتنے بلند و بانگ دعوے کیوں کیئے تھے اور اگر چیف جسٹس اپنے تمام تر دعووں کے باوجود بے بس ہیں تو مشرف سے اس بات کی امید کیوں لگائی گئی کہ وہ جادو کی چھڑی گھمائے گا اور نواز کا خالی کیا ہوا خزانہ بھر جائے گا 62 سال جو گند اس ملک میں گھولا گیا ہے وہ صاف کردے گا،آپ ہی کی تھیوری کے مطابق تو لوگوں کو امریکہ کے ہاتھ بیچنے کا الزام بھی مشرف پر غلط ہواکیونکہ اس کے نیچے کے لوگ کیا کیا کررہے ہیں ہر چھوٹی چھوٹی بات کا علم تو وہ نہیں رکھسکتا،اور 12 مئی کا زمہ دار صرف ایم کیو ایم کو کیوں کہا جاتا ہے جبکہ سب کے ہاتھوں میں موجود گنوں کے ثبوت موجود ہیں،خاص اسی جگہ پر یہ فائرنگ کیوں دکھائی گئی جہاں سب کو پتہ تھا کہ آج ٹی وی کے کیمرے لگے ہیں اور سازشیوں نے اس خیال سے اپنے کیمروں کا بھی انتظام کیا ہوا تھا کہ اگر آج والے نہ بنا سکیں تو ہم بنا کر دکھا سکیں اور ان لوگون کو بھی آج کی ٹیم نے اپنے کیمروں میں کیپچر کیامگر آپ لوگ ان حقائق سے جان بوجھ کر نظریں چرا لینا چاہتے ہیں کیونکہ آپ یہ سب حب علی میں نہیں صرف بغض معاویہ میں کررہے ہیں
عبد اللہ بھائی کے لئیے بطور خاص 😆 😆 😆
محترم چوہدری حشمت صاحب!
قبلہ! آپ رقم طراز ہیں ۔۔۔۔ آپ سب کو برا بھلا کہتے ہو تو نوازے کے کرتوت کیوں بھول جاتے ہو، اسطرح آپ اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت نہیں کرسکتے ہو۔
جسکے مدینے کے 7سٹار ہوٹلو میں شئیرز ہوں، جو جدہ میں سٹیل مل لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب برا کہنا ہوتا ہے تو تعصب کی عینک اتار کہ کہنا چاہئے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو گزارش ہے آپ پتہ نہیں کیوں میرے بارے میں یہ فرض کیئے بیٹھیں ہیں ۔ کہ میں نواز شریف سے کوئی خاص عقیدت رکھتا ہوں ۔ سبحان اللہ ۔ آپ کو غالبا دوسری جگہوں میری رائے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ ماضی میں جب کبھی نواز شریف کا کردار زیر بحث آیا تو میں نے الحمد اللہ اپنے ضمیر کی حد تک جو سمجھا وہ ضرور لکھا ہے۔ بی بی سی اردو ایڈیشن کے صحفات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہاں میں نے قرض اتاریے اور ملک سنواریے نامی نواز شریف دور کے نعرے اور اس مد میں آئی رقم کے گم ہوجانے پہ لکھا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے محترمہ تانیہ رحمان نے اپنے بلاگ پہ شریف خاندان کے شیروں کا ذکر کیا ہے آپ وہاں پہ میری لکھی ہوئی رائے دیکھ لیں ۔ اگر آپ کو کہیں شریف برادران کی تعریف کی بجائے تنقید نہ ملے تو پھر آپ کا گلہ بجا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں کے حوالے دے سکتا ہوں جہاں میں نے ان کا موضوع چھڑنے پہ ان پہ تنقید کی ہے۔ تنقید سے کسی سیاسی رہنماء کا قد کاٹھ بڑھ تو سکتا ہے کم نہیں ہوتا کیونکہ اسے اپنی غلطیوں کا ادراک ہوتا رہتا ہے اور وہ اسے درست کرتا ہے۔ جبکہ یہ رواج ایم کیو ایم میں نہیں اور ان میں پارٹی پہ قابض لوگ تنقید کے جواب میں اپنے لوگوں سے تشدد میں بات کرتے ہیں۔
چو ہدری صاحب !
میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ دوسروں کے بارے میں لا علم ہوں ۔ مگر اپنے بارے میں ایک بات یقینی طور پہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے نزدیک اس ساری مشق کا حاصل صرف یہ ہے کہ کل کو اللہ تعالٰی کے حضور یہ شرمندگی نہ ہو کہ مجھے اپنی سی معلومات کی حد تک حق اور سچ بات کہنے کا موقع ملا مگر میں نے یوں نہ کیا۔ اسمیں غلطی اور بھول چوک کا امکان بے شک رہتا ہے ۔
عبداللہ بھائی! آپ دو غیر متوازن شخصیات کو تول رہے ہیں۔ چیف جسٹس سے انصاف کی امید رکھنا سو فیصد درست ہے جبکہ کسی فوجی ڈکٹیٹر سے انصاف کی امید رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے۔ اگر آپ چیف جسٹس اور مشرف کا موازنہ کرنا ہی چاہتے ہیں تو ذرا بتلایئے کہ پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار کیا چیف جسٹس کو حاصل تھا؟ کیا چیف جسٹس کسی صورت بھی فوجی قیادت میں تبدیلی کرسکتے تھے؟ کیا چیف جسٹس کو رچرڈ ہالبروک کی کالز وصول ہوتی تھیں؟ غرض یہ کہ مشرف کے پاس لامحدود اور چیف جسٹس کے پاس محدود اختیارات تھے اور ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ مشرف تبدیلی نہیں لاسکتے تھے اور چیف جسٹس لاسکتے تھے، حقائق سے نظر چرانے والی بات ہے۔ موجودہ حالات میں بھی اگر حکمران اتحاد سنجیدگی و دانشمندی سے حالات کو جائزہ لے کر کام کرے تو بہتری کی امید بالکل کی جاسکتی ہے۔ لیکن جب تک ہمارے حکمران اپنے غیر ملکی عیاشیوں کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بھیک مانگتے رہیں گے، ہماری حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔
کیمروں نے بارہ مئی کو جو کچھ کراچی اور پھر راولپنڈی کے جلسے سے متعلق محفوظ کیا وہ سب کو یاد ہے۔ کون اس کا کتنا ذمہ دار ہے، اس کا فیصلہ خود انسانی ضمیر با آسانی کرسکتا ہے۔ ہاں! اگر ضمیر ہی نہ ہو تو الگ بات ہے۔
😆 😆 عبداللہ بھائی! 😆
میرے نزدیک اس ساری مشق کا حاصل صرف یہ ہے کہ کل کو اللہ تعالٰی کے حضور یہ شرمندگی نہ ہو کہ مجھے اپنی سی معلومات کی حد تک حق اور سچ بات کہنے کا موقع ملا مگر میں نے یوں نہ کیا۔
شکریہ گوندل صاحب “ حقیت بس اتنی ہی ہے“ کہتے ہیں
“جس نے سچ کو جان لیا اس نے حق (اللہ) کو پہچان لیا“
اللہ ہم سب کو سچ کو جانے سمجھنے اور سچ گوئی پر عمل کی توفیق عطا کرے آمین۔
اسد بھائی اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کے ضمیر ہی سوئے ہوے ہیں ورنہ کسی نے آج تک ان کیمرا مینوں کا تزکرہ نہین کیا جو آج ٹیوی سے تھوڑے فاصلے پر چھپ کر باقائدہ بڑے بڑے کیمرے اسٹینڈ پر فٹ کر کے اس واقعے کی مووی بنا رہے تھے وہ کسی میڈیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے انہیں وہاں کھڑا ہی اسی لیئے کیا گیا تھا مینے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس پر طلعت کا تبصرہ بھی سنا جو اس نے کیا تھا ان لوگوں کو کیمرے کی آنکھ سے دکھاتے ہووے کہ یہ کچھ لوگ ہیں جو اپنے طور پر اس واقعے کی مووی بنا رہے ہیں اور حلیئے سے میڈیا کے لوگ نہیں لگتے ہیں اور یہ بات میں اپنے اللہ کو حاضر ناضر جان کر کہرہا ہوں،
اس کے علاوہ مینے ایک سوال کیا تھا کہ پاکستان ضروری ہے یا آئین ؟مگر کسی کو اس سوال کا جواب دینے کی توفیق نہ ہوئی 🙁
اور یہ کہنا غلط بھی ہے کہ مشرف کے پاس لامحدود اختیارات تھے اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ اس کا ذاتی فیصلہ تھا پوری فورس ہر معاملے میں انوالو رہی ہے اور پاکستان کی بقاء کے لیئے جو ان حالات میں ضروری تھا وہ کیا گیا اب اگر کسی عقل کے اندھے اور تعصب میں دوبے شخص کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تو اس کے لیئے صرف دوا ہی کی جاسکتی ہے!
گوندل صاحب آپ ضرور ہنستے رہیئے کیونکہ آپ جیسے لوگ اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے 🙂
جی بالکل عبداللہ بھائی! آپ کی بات درست ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے کسی جماعت کے ملوث ہونے یا نہ ہونے کا پتا کیسے چلتا ہے؟ صرف آپ ہی نے نہیں، لاکھوں لوگوں نے کراچی کی سڑکوں پر لاشیں بکھری دیکھیں۔ اور انہیں بھی دیکھا جو انسانی جانوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیا۔
پاکستان ضروری ہے یا آئین؟ یہ سوال ایسا ہی ہے کہ بندہ ضروری ہے یا دماغ؟ جس طرح کسی بھی شخص کو روز و شب کے کام درست طریقے سے کرنے کے لیے دماغ درکار ہوتا ہے، اسی طرح ملک کی ترقی اور بقاء میں آئین و قانون کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔
مشرف صاحب یا ان کی جمعیت کے اکثر فیصلہ وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے تھے، جن کا ثمر بہت سے معاملات میں سامنے آچکا ہے۔ اور بہت سے معاملات میں کچھ دنوں میں آجائے گا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، حالیہ مثالوں ہی کو دیکھ لیں تو واضح ہوجائے گا کہ پالیسیاں کتنی قوت بخش تھیں۔ این آر او، میڈیا اور عدلیہ پر شب خون مارنا جیسے اعمال اگر کسی کے لیے ‘پاکستانی بقا‘ کی ضامن ہیں تو ایسے شخص کے لیے ‘دوا‘ نہیں ‘دعا‘ کی ضرورت ہے۔ ہدایت کی دعا۔
چلیئے بحث ختم کرتے ہیں اور وقت کو اس بات کا فیصلہ کرنے دیتے ہیں کہ کون اس ملک سے مخلص ہے اور کون نہیں اور کون سا کس کا فیصلہ کس حد تک ملک کے لیئے بہتر ثابت ہوا !
😆 😆 😆 عبداللہ بھائی! 😆 😆 😆
کاں چٹا اے۔ کوا سفید ہے۔
جی بالکل عبداللہ بھائی!
Leave A Reply