این آر او اسمبلی میں پیش ہو چکا ہے اور اب اگلے سیشن میں اس کے پاس ہونے کے امکانات واضح ہیں کیونکہ فرینڈلی حزب اختلاف عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلیے شور تو مچائے گی مگر حقیقت میں کچھ نہیں کرے گی۔ این آر او کیساتھ ساتھ مشرف کے دوسرے بہت سے اقدامات کو اسمبلی سے پاس کرانے کیلیے حکومت کے پاس سادہ اکثریت ہے۔ اس لیے حالات یہی بتاتے ہیں کہ تمام آرڈینینس جلد ہی قانون کا حصہ بن جائیں گے۔

عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ این آر او کا فائدہ کس کس کو ہوا۔ این آر او کیخلاف سڑکوں پر آنے کا عوام کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ عوام اگر آٹے چینی بجلی کا بحران برداشت کر سکتے ہیں تو این آر او تو ان کے لیے کوئی بڑا بحران ہے ہی نہیں۔

جس طرح کیری لوگر پر لاحاصل بحث ہوئی اور کسی نتیجے پر پہنچے بغیر اسمبلی کا اجلاس  غیرمعینہ مدت کیلیے ملتوی کر دیا گیا، اسی طرح این آر او بھی عوام کے معاشی مسائل کے نیچے دب جائے گا اور حزب اختلاف منہ دیکھتی رہ جائے گی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جان بوجھ کر خاموش رہے گی۔

ہمارے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ابھی ایک حل نہیں ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ دیکھیں ناں اب جنوبی وزیرستان پر فوج کشی سب سے بڑا ایشو بن گیا ہے جس نے کیری لوگر بل اور این آر او کو بھلا ہی دیا ہے۔ اب اس فوج کشی کے دوران پاکستان میں خودکش دھماکے ہوں گے اور عوام کی توجہ ادھر ہو جائے گی۔

ایسے مسائل کا فائدہ اگر کسی کو ہوتا ہے تو وہ کرپٹ حکومت کو کیونکہ یہ مسائل ان کی کرپشن پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور جب پردہ اٹھتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔