پاکستان سے اس کا مشرقی حصہ جدا ہوۓ پینتیس سال ہو چکے ہیں اور اس دوران کتنی حکومتیں بدلیں مگر کسی کو اتنی ہمّت نہیں ھویی کہ وہ بنگلہ دیش میں رہ جانےوالے دو لاکھہ پچیّس ہزارپاکستانیوں کو پاکستان واپس لا سکے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی بنگلہ حکومت نے ان کو قبول نہیں کیا اور وہ اب بھی مہاجر کیمپوں میں اپنی تیسری نسل کو پال رہے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے ایک بار ہلکی سی کوشش کی اور اس کیلیے ایک فنڈ مقرّر کیا مگر اس کے بعد معاملہ سرد پڑ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر موجودہ حکومت تک کسی صاحب اختیار کو یہ نصیب نہیں ہوا کہ وہ اس کارخیر میں اپنا حصّہ بٹا سکے۔ ہمیں آج تک یہ سمجھہ نہیں آسکی کہ ان پاکستانیوں کو پاکستان لانے میں کونسی رکاوٹ تھی اور ہے۔ اگر رقم کا مسلہ تھا تو لوگ چندہ دینے کیلیے تیار تھے۔
اگر اسلام کے شروع میں مسلماں مہاجروں کو بھایی بنا کر اپنے گھر میں جگہ دے سکتے تھے تو اب کیوں نہیں۔
ہم پچاس لاکھہ افغانیوں کو پچیس سال سے اپنے ہان مہمان بنا سکتے ہیں مگر اپنے پاکستانیوں کو واپس نہیں لاسکتے۔
اگر حکومت مخلص ہوتی تو ان کی آباد کاری کیلیے رقم عارضی طور پر ٹیکس لگا کر پوری کر سکتی تھی۔ جہاں عوام پر جی ایس ٹی لگ سکتا ہے وہاں ایک سال کیلیے بہاری ٹیکس بہی برداشت ہو سکتا تھا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف نے بھی یہ مسلہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا اور نہ ہی کسی این جی او کو خدا نے توفیق دی کہ وہ یہ نیک کام کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس کسی نے بھی اپنی زندگی میں یہ کام کیا وہ عبدالستّار ایدھی کی طرح اپنا نام تاریخ میں رقم کر جایے گا۔
مزید معلومات کی لیے مندرجہ زیل ویب سایٹ انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔
http://www.statelesspeopleinbangladesh.net