پہلے پاکستان
پرويز صاحب کہتے ہيں کہ حکومت سنبھالنے کے بعد انہيں سب سے پہلے يہ خيال آيا کہ ملک ميں مارشل لاء نہيں لگانا چاہۓ کيونکہ مارشل لاء سے آرمي محکموں پر قابض ہوجاتي ہے اور اسطرح بيوروکريسي آرمي کے سہاارے پر چلنا شروع کرديتي ہے ۔ آرمي کو ٹاپ پوسٹس پر تعينات نہيں کيا جاۓ گا بلکہ صرف چيک اينڈ بيلينس کيلۓ کچھ عہدے ديۓ جائيں گے۔ پرويز صاحب نے شريف الدين پيرزادہ کي راۓ کي مدد سے قانون کو چند شقوں کے علاوہ بحال رکھا اور خود ملک کے سب سے پہلے چيف ايگزيکٹو بن گۓ۔ پرويز صاحب نے ان باتوں کي باقي آرمي کمانڈ سے منظوري لے لي۔
کوئي عقل کا اندھا ہي مانے گا کہ ملک پر قابض ايک آرمي چيف ہو اور ملک ميں جمہوريت ہو يعني مارشل لاء نہ ہو۔ پھر پرويز صاحب نے اب يہ پتہ نہيں کيوں لکھ ديا ہے کہ آرمي کسي بھي محکمے کي ٹاپ پوسٹوں پر قبضہ نہيں کرے گي حالانکہ موجودہ صورتحال تو الٹ ہے۔ تعليم سے لے کر صنعت تک ہر محکمے پر آرمي کے موجودہ نہيں تو ريٹائرڈ جنرل قبضہ کۓ بيٹھے ہيں۔ آدمي کو ايسي باتيں لکھنے سے پہلے تھوڑا سا ضرور سوچ لينا چاہۓ کہ جو وہ لکھ رہا ہے زميني حقائق بھي اس کي گواہي ديتے ہيں کہ نہيں۔ ليکن جب آدمي مختارِ کل ہو تو کسي چيز کي پرواہ نہيں کرتا۔ شريف الدين پيرزادہ وہ آدمي ہيں جنہوں نے ڈکٹيٹروں کو ان کي مرضي کے مطابق غلط مشورے دے دے کر جمہوريت کا سب سے زيادہ  بيڑہ غريق کيا ہے۔ اللہ جانے انہيں قانون کي تشريح ڈکٹيٹروں کے حق ميں کرکے کيا ملا اور اس سے ملک کي کونسي خمدت مطلوب تھي۔
پرويز صاحب جب منسٹر چننے کي بات کرتے ہيں تو يہ کہتے ہوۓ بلکل نہيں جھجکتے کہ سارے منسٹر آرمي آفيسروں نے چنے سواۓ وزيرِ خزانہ کے جو انہوں نے خود پسند کيا۔ ہمارے ہاں يہ عام خيال رہا ہے کہ کئير ٹيکر حکومت کا وزيرِ اعظم اور ڈکٹيٹروں کا وزيرِ خزانہ درآمد شدہ ہوتا ہے يعني آئي ايم ايف يا ماورائي طاقت کي سفارش پر رکھا جاتا ہے۔ يہي کچھ پرويز صاحب نے کيا مگر خود اس سيليکشن کا کريڈٹ لينے کي کوشش کي ہے۔ کہتے ہيں شوکت عزيز صاحب نے اپني شاندار زندگي کا رہن سہن چھوڑ کر ملک کي خدمت کرنے کا عہد کيا اور وزارت سنبھال لي۔ حالانکہ ہم سب يہ جانتے ہيں کہ پاکستان کي وزارت اور پھر وزارتِ عظميٰ سے بڑي کوئي عياشي والي پوسٹ دنيا ميں نہيں ہے۔ اسلۓ شوکت عزيز صاحب نے جو بھي فيصلہ کيا وہ اچھا کيا۔
سٹيٹ بنک کا گورنر چننے کي باري آئي تو وہ بھي ورلڈ بنک سے درآمد کيا گيا تاکہ وہ ملک کي بجاۓ ورلڈ بنک کي پاليسيوں کا زيادہ خيال رکھے۔
پرويز صاحب کہتے ہيں کہ انہوں نے اپني حکومت کا آغاز صرف دس وزيروں سے کيا جو اس سے پہلے کي حکومت کي کابينہ کي تعداد سے کہيں کم تھے۔ يہاں پر پرويز صاحب بھولے نہيں بلکہ اس بات کو گول کرگۓ ہيں کہ اس وقت ان کي کابينہ ملک کي ہي نہيں بلکہ برِ صغير کي سب سے بڑي کابينہ ہے۔
پرويز صاحب اپني کابينہ کي سب سے بڑي خوبي انگلش ميں مہارت بيان کرتےہيں اور اپنے وزراء کے فر فر انگلش بولنے پر اتراتے ہيں۔ وزيرِ تعليم زبيدہ جلال کا ذکر کرتے ہوۓ کہتے ہيں کہ وہ بلوچستان کے کم ترقي يافتہ علاقے سے تھيں جہاں پر عورتوں کو تعليم نہيں دي جاتي۔ جب زبيدہ جلال کي باري آئي تو پرويز صاحب نے ان کي آساني کيلۓ کہا کہ ہم انگلش کيساتھ ساتھ اپني قومي زبان اردو میں بھي بول سکتے ہيں۔ پرويز صاحب حيران ہوگۓ جب زبيدہ جلال نے انگريزي بولنا شروع کي۔
پرويز صاحب کو کون سمجھاۓ کہ ان کي يہ سوچ بلکل غلط ہے کہ صرف انگلش ہي تعليم يافتہ اور ذہين ہونے کا پيمانہ ہے۔ دراصل يہ پرويز صاحب کا قصور نہيں ہے يہ آرمي کے ماحول کي بدولت ہے جس ميں ايک آرمي آفيسر کو سب سے پہلے يہ سکھايا جاتا ہے کہ اپني قابليت کو ثابت کرنے کيلۓ جونيئرز کو صرف اگريزي ميں چھاڑ پلاؤ۔ ہمارے آرمي آفيسر کي افسري اس وقت ديکھنے والي ہوتي ہے جب وہ انگريزي ميں اپنے بيٹ مين کو باسٹرڈ، سن آف بچ، اور اسطرح کے دوسري گالياں دے رہا ہوتا ہے۔ پرويز صاحب کي اطلاع کيلۓ ضروري ہے کہ اگر انگريزي ہي ترقي اور ذہانت کا پيمانہ ہوتي تو پھر جرمني، فرانس اور جاپان ترقي يافتہ ملک نہ ہوتے بلکہ ہم جيسے ملکوں کي صف ميں شامل ميں ہوتے۔لگتا تو يہ ہے کہ انگريزي کو عام کرکے اتحاديوں کے ايجينڈے پر عمل کيا جارہا ہے۔ اس طرح پاکستاني اتحاديوں کا لٹريچر پڑھ کر اور انگريزي ٹي وي چينلز اور فلميں ديکھ کر ان کے رنگ ميں آساني سے رنگ جائيں گے اور ان کا پيغام ہم تک آساني سے پہنچ سکے گا۔ يہ ملک کي خدمت نہيں بلکہ اسے اتحاديوں کا غلام بنانے کي سازش ہورہي ہے۔ تاريخ جب بھي اس سازش کا ذکر کرے گي تو پرويز صاحب کا نام ٹاپ پر ہوگا۔ دنيا تو اس بات کي قائل ہے کہ جو ترقي اپني زبان ميں ہوسکتي ہے وہ غيروں کي زبان ميں نہيں۔
پرويز صاحب نے ملک ميں کرپشن پر تفصيل سے روشني ڈالي ہے اور چند مثاليں دے کر يہ ثابت کرنے کي کوشش کي ہے کہ جو کام پہلے  اربوں ميں انجام پارہے تھے وہ انہوں نے کروڑوں ميں کۓ۔ ليکن بعد ميں جو کچھ ہورہا ہے اس کا کہيں ذکر نہيں۔ نہ ہي نج کاري ميں کميشنوں کا ذکر ہے اور نہ بي بيروني دوروں پر بے تحاشہ قومي دولت لٹانے کي بات کي ہے۔
 پرويز صاحب يہ بات بھول رہے ہيں کہ ان کي حکومت کے سات سال مکمل ہونے کے بعد بھي پاکستان کا شمار دنيا کے کرپٹ ملکوں ميں ہوتا ہے۔
پرويزصاحب کہتے ہيں کہ نواز شريف کي جمہوريت وہ جمہوريت نہيں تھي جس کا قائد اعظم نے خواب ديکھا تھا۔ پرويز صاحب کو يہ بات بھي نہيں بھولني چاہۓ کہ قائد اعظم نے کبھي يہ خواب بھي نہيں ديکھا تھا کہ ملک پر فوج قبضہ کرلے گي اور فوجي جمہوريت کا راج ہوگا۔۔
اس کے بعد پرويز صاحب اپني پہلي تقرير کے پہلے سات نقاط بيان کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ وہ انہي نقاط پر عمل کرکے ملک کي خدمت کرسکتے تھے۔ وہ سات نقاط يہ ہيں۔
1۔ قوم کے اعتماد کو بحال کرنا
2۔ قومي يکجہتي کو مضبوط کرنا اور صوبوں کے درميان بے اعتمادي کو کم کرنا
3۔ ملک کي معيشت کو سنبھالنا اور سرمايہ داروں کا اعتماد بحال کرنا
4۔ قانوں کي حکمراني بحال کرنا اور انصاف کي جلد فراہمي کا بندوبست کرنا
5۔ حکومتي اداروں سے سياست کا خاتمہ
6۔ حکومتي اختيارات کي نچلي سطح تک منتقلي
7۔ احتساب کے نظام کا بلا تفريق  قيام
ان سات نقاط ميں سے چار نقاط کو انہوں نے ترجيح دي اور ان پر عمل کرنے کا عہد کيا۔ وہ چار نقاط تھے
1۔ معيشت کي بحالي
2۔ اچھي حکومت کي بحالي
3۔غربت کو ختم کرنا
4۔ جمہوريت کا احياء
اب اگر ہم سات سال بعد پرويز صاحب کے ان نقاط کا جائزہ ليں تو سواۓ معيشت کي بحالي کے پرويزصاحب باقي کوئي بھي ٹارگٹ حاصل نہيں کرسکے۔ معيشت کي بحالي بھي 911 کي دين ہے۔ پرويز صاحب نے نہ تو قومي اعتماد بحال کيا، نہ ہي قومي يکجہتي کو فروغ ديا۔ بلکہ بلوچستان اور شمالي علاقوں ميں فوجي کاروائياں اور سندھيوں کو غائب کرکے يکجہتي کو پارہ پارہ کرنے کي کوششوں ميں مصروف ہيں۔
قانون کي حکمراني بحال ہونے کي بجاۓ ون مين حکمراني بحال ہوئي اور عدالتيں ان کي باندي بن گئيں۔ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ سپريم کورٹ نے اتخابات کي مدت تين سال کي دے کر ان کے ہاتھ باندھ ديۓ اور وہ کئ کام نہ کرسکے۔ ان ميں ايک صوبوں ميں فنڈز کي تقسيم، دوسرا گورنمنٹ اور سول سروس کي ريسٹرکچرنگ۔ يہاں پر ايک بات ياد رہے کہ کورٹس کو غلام بنانے کيلۓ پرويز صاحب نے بھي جنرل ضيا کي تقليد کرتے ہوۓ ججوں سے نيا حلف ليا اور جنہوں نے حلف لينے سے انکار کيا انہيں گھر بھيج ديا گيا۔ اس کے بعد پرويز صاحب کے ججوں نے پرويز صاحب کے مخالفوں کو سزائيں دے کر اندر کيا اور ان کرپٹ اور قرض نادہندگان کر کھلي چھٹي دے دي جو پرويز صاحب کے ساتھ مل گۓ۔ 
ايک بات ہم پرويز صاحب کي مانتے ہيں کہ انہوں نےحکومتي اداروں سے سياست کا خاتمہ کرديا۔ وہ اس طرح کہ سارے محکمے فوجيوں کے حوالے کرديۓ۔ اب ہر محکمے سے سياسيت غائب ہے فوجي ڈنڈے کا راج ہے۔ جس بھي سول ملازم سے بات کرو وہ فوجيوں کي زيادتياں گنوا رہا ہوتا ہے۔ سول ملازميں کي ترقياں رک چکي ہيں اور ان ميں آگے بڑھنے کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے کيونکہ ہر اگلي پوسٹ پر کوئي نہ کوئي فوجي بيٹھا ہوا ہے۔
حکومتي اختيارات کو نچلي سطح تک پہنچانے کيلۓ، پرويز صاحب نے اپنے سابق ڈکٹيٹر جنرلوں کي پيروي کرتے ہوۓ بلدياتي نظام متعارت کروايا اور جنرل تنوير نقوي کو يہ کام سونپا۔ پرويز صاحب کے بقول ورلڈ بنک نے اسے خاموش انقلاب قرار ديا۔ سوچنے والي بات يہ ہے کہ ورلڈ بنک جو ايک مالياتي ادارہ سے سياسي نظام پر کيسے اتھارٹي رکھتا ہے۔ اسي لۓ يہاں پر اس حوالے کو دينے کي ضرورت نہيں تھي۔ جس طرح بھٹو نے پوليس اور فوج کے مقابلے پر اپني ايک تيسري فورس بنا لي تھي اسي طرح عام خيال يہ ہے کہ يہ ناظمين پرويز صاحب کي متبادل سياسي فورس ہيں اور انہي کے زور پر قومي اور صوبائي ممبران کو ڈنڈا دے رکھا ہے۔ ہرعلاقے ميں ترقياتي کام ہونے کي بجاۓ ابھي تک اسمبلي کے ممبران اور ناظمين ميں اختيارات کي تقسيم پر ہي فيصلہ نہيں ہوسکا اور يہ لوگ آپس میں ايک دوسرے کو نيچا دکھانے کے چکر ميں پڑے ہوۓ ہيں۔ ان حالات ميں ترقياتي کام خاک ہوں گے۔
احتساب کا قيام تو عمل ميں آگيا اور اس نے شروع کے ايک دوسال اچھا کام بھي کيا۔ يعني قرض نادہنگان کو پکڑا، انہيں سزائيں ديں اور قرضے بھي وصول کۓ مگر بعد میں پرويز صاحب کي مجبورياں آڑے آئيں اور احتساب بيورو صرف مخالفين کو دھمکانے اور انہيں سياسي وفادارياں تبديل کرنے کے کام پر لگا ديا گيا۔ اسي احتساب کے ڈر سے پيپلز پارٹي کا ايک گروپ الگ ہوا اور انہوں نے پتہ نہيں کيا سوچ کر اپنا نام پي پي پي پيٹرياٹ رکھ ليا۔ شائد اسلۓ کہ وہ پرويز صاحب کے پيٹرياٹ بن گۓ اور اپنے قرضوں سے نجات حاصل کرلي۔ انہي پيٹرياٹ کي بدولت پرويز صاحب نيم سياسي حکومت بنانے کے قابل ہوۓ۔ اس کے بعد نيب بلکل غائب ہوگيا اور ايک ڈمي ادارہ بن کر دہ گيا۔ ابھي چند برس قبل سپريم کورٹ نے رولنگ دي ہے کہ ان لوگوں کي لسٹ مہيا کي جاۓ جنہيں نادہندگي کي بنا پر سزائيں ہوئيں مگر اب وہ پيرول پر رہا ہيں اور مزے کررہے ہيں۔ يہ حکومت کا انصاف ہے جب ديکھا کہ سزايافتہ نادہندگان لوگوں اور ميڈيا کي نظروں سے اوجھل ہوچکے ہيں تو انہيں چپکے سے رہا کرديا۔
پرويز صاحب کہتے ہيں کہ 911 نے ان کے سارے ايجينڈے پسِ پشت ڈال ديۓ يعني انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اتحاديوں کے ايجينڈے کي تکميل پر عمل کرنا شروع کرديا۔ اسي 911 اليون کے بعد جب ہم نے افغانستان پر اتحاديوں کے حملے ميں ان کا ساتھ دينے کا بلامشروط وعدہ کيا توپہلے پاکستان کي اصطلاح ايجاد ہوئي۔
پرويز صاحب سپريم کورٹ کي دوسري پابندي يہ بيان کرتے ہيں کہ ان کي حکومت قانون کے بنيادي ڈھانچے کو تبديل نہيں کرے گي۔ اسي پابندي کو ريسٹکرچرنگ ميں ناکامي کي وجہ قرار ديتے ہيں۔ حالانکہ پرويز مشرف نے آئين ميں بنيادي تبديلي کرکے اسے پارليماني سے صدارتي بنا ديا  مگر پھر بھي کہتے ہيں کہ انہوں نے سپريم کورٹ کي حکم عدولي نہيں کي۔
اس آئين کے بڑے آپريشن کے باوجود پرويز صاحب کہتےہيں کہ انہوں آئين کو نہيں چھيڑا اور نہ ہي مارشل لاء لگايا۔
پرويز صاحب نے يہاں پر ايک امريکي صدر ابراہيم لنکن کے خط کا حوالہ ديا ہے۔ پہلي بات تو يہ ہے کہ کيا انہيں نبي پاک صلعم يا قائد اعظم کے ارشادات کم پڑے جو لنکن کے قول کا حوالہ دينا پڑا۔ آئيں اب اس حوالے پر بحث کرتے ہيں اور يہ ديکھتے ہيں کہ پرويز صاحب نے اس کے کيا اخص کيا۔ ابراہيم لنکن کہتا ہے کہ قانون اور قوم ايسے ہيں جيسے جسم کا ايک حصہ اور زندگي۔ جسم کا ايک حصہ ضائع کرکے زندگي تو بچائي جا سکتي ہے مگر زندگي ضائع کرکے جسم کا حصہ نہيں بچايا جاسکتا۔ يہ صحیح ہے يا غلط مگر ميں نے اسي کو بنياد بنايا۔
پرويزصاحب  کہتے ہيں کہ انہيں يہ بات اتني انسپائريشنل اور خوبصورت لگي کہ تب سے اسے اپنے بريف کيس ميں رکھا ہوا ہے۔ کاش پرويز صاحب نے قران کا نسخہ اپنے بريف کيس ميں رکھنے کي عادت ڈالي ہوتي اور اسلامي تاريخ کا مطالعہ بھي کيا ہوتا۔ پھر وہ ديکھتے کہ ان کے اپنے مزہب اور دين ميں اتنے حوالے ہيں جن پر عمل کرکے وہ تاريخ ميں اپنا نام اسي طرح رقم کرسکتے تھے جس طرح صلاح الدين ايوبي، محمد بن قاسم اور ٹيپو سلطان نے درج کيا۔ لگتا ہے پرويز صاحب کي نظر ميں وہ تو بيوقوف تھے جو اپني بات پر ڈٹے رہے اور يوٹرن نہ لے کر اپني اپني جانوں سے ہاتھ دھو بيٹھے۔
 پرويز صاحب نے يہ حوالہ 1990 ميں پڑھا تھا اور انہيں يہ معلوم نہيں تھا کہ ايک دن اسے ہي فالو کرنا پڑے گا۔ انہوں نے آئين کو بدلا يعني پارليماني سے صدارتي اس طرح بنايا کہ نظام ديکھنے سے پارليماني لگے مگر جب اختيارات کے استعمال کي بات آۓ تو صدارتي ہو۔ اس طرح پرويز صاحب کے بقول انہوں نے آئين کے بخيۓ ادھيڑ کر قوم کے کپڑے پھٹنے سے بچالۓ۔ اسي لۓ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ پاکستان سب سے پہلے ہے اور انہوں نے اپني مہارت سے جسم کے حصے اور زندگي دونوں کو بچا ليا۔
 اب يہ آنے والي تاريخ ہي بتاۓ گي کہ پرويز صاحب نے کسے بچايا ، کسے کھويا اور انہوں نے يہ ٹھيک کيا يا غلط۔