اس ہفتے آئی پی ایل نے کسی بھی پاکستانی کرکٹر کو نیلامی میں منتختب نہ کر کے پاکستانیوں کو بہت مایوس کیا ہے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو انڈیا کی فلمیں بھی دیکھتے ہیں، ان کا کپڑا بھی خریدتے ہیں اور ان کی اشیائے خوردنی بھی کھاتے ہیں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو انڈیا کے ڈرامے سی آئی ڈی سمیت بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ ان پاکستانیوں نے انڈیا کی خوشنودی کیلیے کشمیر کی تحریکِ آزادی کی سرپرستی ترک کر رکھی ہے۔ یہ پاکستانی انڈیا کی فلم اور ٹی وی انڈسٹری میں کام کر رہے ہیں۔  یہ پاکستانی انڈیا کی دھمکیوں کے باوجود اس کےساتھ ہر حال میں دوستی قائم رکھنے کی بات کرتے ہیں۔

اس کے بدلے میں انڈیا ہمیں کیا دیتا ہے۔ اس نے ہمارے دریا خشک کر دیے ہیں۔ انڈیا نے ہماری فلم انڈسٹری تباہ کر دی ہے۔ ہماری ثقافت پر یلغار کر چکا ہے اور اب لوگ ہندو تہوار منانے اور شادیوں میں ہندو رسمیں ادا کرنے لگے ہیں۔ انڈیا آہستہ آہستہ اپنا مال پاکستانی منڈیوں میں لا کر ہماری مقامی انڈسٹری کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ان حالات میں اگر کسی نے آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑی منتخب نہ کرنے پر احتجاج کیا ہے تو وہ کیبل آپریٹرز ہیں۔ انہوں نے اپنے چینلز پر آئی پی ایل کے میچز نہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس طرح موجودہ حکومت بے بس ہے اور انڈیا کی ہٹ دھرمیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے لگتا ہے وہ کیبل آپریٹرز کو آئی پی ایل کا بائیکاٹ ختم کرنے پر مجبور کر دے گی۔ کیونکہ موجودہ حکومت نے جس طرح لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کی چھریوں سے عوام کے جسم چھلنی کر رکھے ہیں وہ چاہے گی کہ عوام آئی پی ایل کے میچز دیکھ کر کم از کم ایک ماہ اپنے دکھ بھول جائیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ حکومت احتجاج کے طور پر عملی اقدامات اٹھاتی تا کہ انڈین حکومت ہمارے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں شامل نہ کر کے ضرور پچھتاتی اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی۔ کم از کم ہماری حکومت انڈیا کیساتھ تجارتی تعلقات منقطع کر سکتی تھی۔ ان کی فلموں پر پابندی لگا سکتی تھی۔ ان کے ٹی وی چینل بند کر سکتی تھی۔ کیا ہماری حکومت میں اتنا دم ہے کہ وہ اس طرح کے احتجاجی اقدامات اٹھا سکے یا ہمارے عوام میں اتنی جرات ہے کہ انڈین اشیاء کا بائیکاٹ کر سکیں؟۔