ایک دن جس نے دنیا بدل دی
[پرویز صاحب کی کتاب کا یہ بیسواں باب ہے جو کتاب کا دل ہے۔ ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ یہ کتاب صرف اسی باب کیلۓ لکھی گئ ہے۔ آیۓ دیکھتے ہیں کہ پرویز صاحب نے 911 کے واقعے کو اپنے اور پاکستان کے مفاد کیلۓ کس طرح کیش کرایا] ۔
ستمبر 11،2001 پاکستان میں ایک غیرمعمولی دن تھا۔ پرویز صاحب اس شام اپنے پسندیدہ شہر کراچی میں قائد اعظم کے مقبرے کے ایک باغ کا معائنہ کررہے تھے اور دنیا کے دوسرے کونے میں ہوائی جہازوں کا واقع پیش آرہا تھا جس نے پرویز صاحب کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی راہیں ہی بدل دیں۔ پرویز صاحب کو اتنا معلوم ہے کہ ہم ایک اور جنگ کا ہراول دستہ بننے جارہے تھے اور یہ جنگ تھی گمنام دشمن کیخلاف۔
پرویز صاحب کہتےہیں کہ جس طرح دوسال قبل ان کے جہاز کے اغوا کے دوران ان کے پائلٹ نے ان کے کان میں سرگوشی کی تھی اسی طرح اس نے سرگوشي کرتےہوۓ بتایا کہ ایک جہاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ایک ٹاور سے ٹکرا گیا ہے۔ پرویز صاحب ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے پہلے ہی اس طرح واقف تھے کہ 1993 میں کچھ دہشت گردوں نے اسے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کا سرغنہ رمزے یوسف پاکستان آکر چھپ گیا تھا جسے 1995 میں پاکستان نے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔
[رمزے یوسف ایک طالبعلم جو غیرملکی تھا اور پاکستان میں قرآن حفظ کررہا تھا کیساتھ رہ رہا تھا اور اسی کی اطلاع پر وہ پکڑا گیا۔ اس کی گرفتاری پر 25 ملین ڈالر کا انعام تھا۔ اب پتہ نہیں یہ انعام اس مسلمان طالبعلم اور پاکستان کی سیکیورٹی افواج کے درمیان کس طرح تقسیم ہوا۔ البتہ اس کے بعد وہ مسلمان طالبعلم امریکہ چلا گیا اور اب وہیں کہیں کسی اور نام سے مزے کی زندگی گزار رہا ہوگا]۔
پرویز صاحب نے سب سے پہلے تو یہ خیال کیا کہ کسی چھوٹے سے جہاز نے ٹاور کر ٹکر مار دی ہوگی مگر ان کی چھٹي حس یہ بھی کہ رہی تھی کہ یا تو پائلٹ نے جان بوجھ کر جہاز ٹاور سے ٹکرایا ہے یا پھر جہاز بے قابو ہوکر ٹکرا گیا ہوگا۔ پرویز صاحب نے یہ سارا واقعہ ٹی وی پر دیکھا۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ایک سپر پاور کو اس کی اپنی مٹي پراس کے اپنے جہازوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا اور ایک سپر پاور کی شان کیخلاف گستاخی کی گئ تھی۔ لازمی طور پر امریکہ ایک بپھرے ہوۓ زخمی بھیڑیۓ کی طرح ردِّ عمل دکھانے والا تھا۔ اگر یہ حرکت القائدہ کی تھی تو پھر امریکہ کا رخ افغانستان کی طرف نہ صرف ہونا تھا بلکہ پاکستان بھی طالبان کے حمائتی ہونے کی وجہ سے ٹارگٹ ہوسکتا تھا۔ ستمبر 11 نے ماضی سے نامعلوم مستقبل کی طرف نہ بدلنے والا موڑ لے لیا تھا اور اس کے بعد دنیا ہمیشہ کیلۓ بدل جانے والی تھی۔
پرویز صاحب گورنر ہاؤس گۓ وہاں سے انہوں نے ٹی وی پر اس واقعے کی مزمت کی اور امریکہ کو اپنی حمائت کا یقین دلایا۔ اگلی صبح ایک اہم میٹنگ کے دوران ان کے ملٹری سیکریٹری نے بتایا کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ کا فون ہے اور وہ ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ پرویز صاحب نے کہا کہ انہیں کہ دو کہ وہ انہیں واپس کال کریں گے [یہ تو سرا سر جھوٹ لگتا ہے کہ پرویز صاحب نےاتنے غیر معمولی واقعے کے بعد امریکہ کے وزیرِ خارجہ کی کال کو اپنی میٹنگ سے کم اہمیت دے کر بعد میں فون کرنے کا کہا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ پرویز صاحب بغیر کسی پروٹوکول کا لحاظ کۓ اٹھے ہوں گے اور اسی وقت فون اٹھا کر جی سر جی سر کرنا شروع کردیا ہوگا]۔ جب ملٹری سیکریٹری نے کہا کہ وہ ابھی اور اسی وقت بات کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے میٹنگ سے اٹھ کر فون پر کولن پاول سے بات کی۔ پرویزصاحب کے بقول کولن پاول نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ” تم یا ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو”۔ پرویز صاحب نے اسے الٹی میٹم سجھا۔ تاہم شائع شدہ خبروں کے برخلاف یہ بات چیت تفصیلی نہیں تھی۔ پرویز صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہیں۔ ہم نے بلکل سودے بازی نہیں کی اورہمارے پاس سوچنے کیلۓ وقت تھا کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔
اگلے دن جب پرویز صاحب اسلام آباد پہنچے تو ان کی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جو اس وقت واشنگٹن میں تھے سے فون پر بات ہوئی اور انہوں نے امریکہ کے ڈپٹی سیکریٹری خارجہ رچرڈ آرمٹیج سے اپنی ملاقات کا حال بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ رچرڈ آرمٹیج نے کسی سفارتی آداب کا لحاظ کۓ بغیر انہیں دھمکی دی ہے کہ پاکستان نے اب یہ نہیں چننا کہ اسے امریکہ کا ساتھ دینا ہے کہ نہیں بلکہ یہ نظر میں رکھنا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کی بجاۓ دہشت گردوں کا ساتھ دیا تو امریکہ اس پر اتنی بمباری کرے گا کہ وہ ہزاروں سال پرانی دنیا میں لوٹ جاۓ گا۔ یہ دل ہلادینے والی دھمکی تھی اور اس سے ظاہر ہورہا تھا کہ امریکہ نے بدلہ لینے کا تہیہ کرلیا ہے اور بدلہ بھی سخت قسم کا۔
[اس پیراگراف کو پرویز صاحب نے امریکہ کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں اپنی کتاب کو کیش کرانے کیلۓ استعمال کیا اور بعد میں اس پر کافی بحث بھی ہوئی۔ رچرڈ آرمٹیج نے ہوبہو ان الفاظ کے استعمال کی تردید کی مگر اس بات کا اقرار کیا کہ دھمکی کچھ اسی طرح کی تھی۔ بعد میں پرویز صاحب کی صدر بش کیساتھ مشترکہ کانفرنس میں بھی اس بات کی تصدیق کیلۓ سوال پوچھا گیا جس کے جواب میں صدر بش نے کہا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جبکہ پرویز صاحب نے کتاب پڑھنے کی ہدائت کی]۔
پرویز صاحب نے ٹھنڈے دماغ سے فوجی اندازمیں اپنی ساری آپشنز کو سامنے رکھتےہوۓ نفع اور نقصان کا جائزہ لیا۔ جوش و خروش ڈرئنگ روموں، اخباروں کے اداریوں اور فلموں میں پایا جارہا تھا لیکن اس طرح کے فیصلوں میں جوش کی بجاۓ ہوش سے کام لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک لیڈر کا فیصلہ کروڑوں لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کررہا ہوتا ہے۔ اس وقت لیڈر بلکل تنہا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی تجاویز سن سکتا ہے مگر آخر میں فصلہ اسی نے کرنا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسی نے فیصلہ کرنا ہے اور یہ کوئی عام سی بات نہیں ہوتی۔
[ ہم پرویز صاحب کی اس منطق سے متفق نہیں ہیں۔ یہ مشہور مقولہ ہے کہ ایک ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک آدمی کی سوچ محدود ہوتی ہے اور محبِ وطن ایک سے زیادہ لوگوں کی سوچ لامحدود ہوتی ہے۔ اگر ایک آدمی کا فصلہ سب پر بھاری ہوا کرتا تو پھر صدر کے ہوتے ہوۓ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں کانگریس اور سینٹ کے ادارے نہ ہوتے۔ ججوں کو جیوری کی شکل میں دس بارہ آدمی فیصلے کیلۓ مہیا نہ کۓ جاتے۔ پرویز صاحب جانتے ہیں کہ انہیں بھی اپنے کورکمانڈروں کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے اور اگر وہ انہیں ساتھ لیکر نہ چلیں تو وہ ایک دن بھی حکومت نہیں کرسکیں گے۔ اس لۓ بہتر ہوتا اگر پرویز صاحب اس نازک گھڑی میں اکیلے فیصلہ کرنے کی بجاۓ قوم کو بھی اس فیصلے میں شامل کرلیتے۔ یہ تو امریکہ کی خوش قسمتی تھی کہ پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ تھی اور فیصلہ آسان شرائط پر ہوگیا وگرنہ ہمارا سو فیصد یقین ہے کہ پاکستان پرویز صاحب سے بہتر ہی ڈیل کرتا۔ ترکی اور انڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ترکی امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود عراق کے معاملے میں امریکہ کےساتھ ڈیل نہ کرسکا اور انڈیا کو امریکہ کی ضرورت ہونے کے باوجود امریکہ کی مرضی کیخلاف عراق میں فوجیں نہ بھیجنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ کاش اس وقت ہمارے ملک میں بھی جمہوریت ہوتی اور ہم اچھی شرائط پر امریکہ سے مک مکا کرسکتے]۔
[ہمیں اس بات کا اتنا افسوس نہیں کہ پاکستان نے طالبان کے معاملے میں یوٹرن لیکر اپنے آپ کو بچا لیا بلکہ اس سے زیادہ اس بات کا افسوس ہے کہ اس واقعے کے بعد بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی کوئی ایسی کوشش کی کہ دوبارہ ہم اس طرح کے فیصلے سے بچ سکیں۔ ہم اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ستمبر 11 سے پہلے تھے اوراگر اسی طرح ملک پر مطلق العنانی مسلط رہی تو شائد اسی طرح رہیں گے]۔
[پرویز صاحب اپنے فیصلے کی تائد میں آگے بہت ساری تاویلیں گھڑتے ہیں یعنی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سب تاویلوں کو جانتے ہوۓ بھی انہوں نے ان کے سدِّباب کی کوشش کی کہ نہیں]۔
پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ان کے فیصلے کا دارومدار ان کے عوام اور ملک کے مفاد پر تھا۔ پرویز صاحب نے “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگایا اور اپنی حکمتِ عملی امریکہ کے ساتھ جنگ کی صورت میں ترتیب دی۔ سوال یہ تھا کہ اگر ہم امریکہ کی مخالفت مول لیتے ہیں تو کیا ہم اس حملے کا مقابلہ کرسکیں گے۔ اس کا جواب نہ میں تھا اور اس کی تین وجوہات تھیں۔
۱۔ ہماری آرمی امریکہ کے مقابلے میں کمزور تھی اور اس طرح ہماری فوج تباہ و برباد ہوجاتی۔
۲۔ ہماری اکانومی اتنی مضبوط نہیں تھی۔ ہمارے پاس تیل بھی نہیں تھا۔ ہماری اکانومی امریکہ کے حملے کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔
۳۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ ہماری قومی کمزوری تھی۔ ہم میں اس اتحاد کی کمی تھی جس کی وجہ سے ہم ملکر اس حملے کا مقابلہ کرسکتے۔ ہم کسی بھی لحاظ سے امریکہ کیساتھ فوجی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔
[پتہ نہیں تیسری وجہ بیان کرنے کی پرویز صاحب کو یہاں ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور کیوں قومی انتشار کو اپنے دشمن کے آگے ننگا کردیا۔ اور پھر وہی بات ہے کہ کیا ان پانچ سالوں میں پرویز صاحب نے پاکستان آرمی کو مضبوط بنانے اور قوم کو متحد کرنے کی کوئی کوشش کی تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال میں ہم دوبارہ نامرد کہلوانے سے بچ سکیں]۔
پرویز صاحب نے پھر قومی مفاد کا بھی تجزیہ کیا۔
ایک، ہندوستان امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے پیش کرچکا تھا۔ اگر ہم نہ کردیتے تو ہندوستان یہ آفر قبول کرلیتا۔ اس کے بعد کیا ہوتا کہ ہندوستان کو کشمیر کا مسٔلہ دبانے کا سنہری موقع مل جاتا۔ ہندوستان اس صورتحال کا فائد اٹھاتے ہوۓ کشمیر پر حملہ بھی کرسکتا تھا اور امریکہ اور یواین کی مدد سے اس مسٔلے کو ہمیشہ کیلۓ دبا دیتا۔ امریکہ یقیناً ہندوستان کے احسان کا بدلہ چکانے کیلۓ اس کا ساتھ دیتا۔
دوسرے، ہمارے ایٹمی اساسوں کی حفاظت مشکل ہوجاتی۔ ہم ایٹمی طاقت بننے کی وجہ سے ہندوستان کیساتھ برابری کا حق کھونا نہیں چاہتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کبھی بھی مسلمان ملک کو ایٹمی طاقت دیکھنا گوارا نہیں کرے گا اور وہ بلاشک کوشش کرے گا کہ ایٹمی آثاثوں کو تباہ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے اور ہندوستان امریکہ کو ایٹمی اثاثے تباہ کرنے میںضرور مدد کرتا۔
تیسرے، ہماری معاشی ترقی جو ہم نے پچاس سالوں میں حاصل کی وہ صفحہء ہستی سے مٹ جاتی۔
آخری سوال پرویز صاحب کے ذہن میں یہی تھا کہ کیا طالبان کیلۓ اپنے آپ کو تباہ کرنا پاکستان کے مفاد میں تھا کہ نہیں۔ کیا خود کشی کا کوئی حاصل تھا کہ نہیں۔ جواب صرف نہ میں ہی تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے روس کے جانے کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تو طالبان کی حمائت کی۔ کچھ عرصے کیلۓ تو امریکہ نے بھی ایک حد تک طالبان کی حمائت کی۔ ہمیں امید تھی کہ طالبان اسلام کی اصلی تعلیمات پر عمل کرتے ہوۓ تباہ شدہ افغانستان میں اتحاد اور امن بحال کریں گے۔ لیکن انہوں نے ملاؤں کی حکومت قائم کردی جو کہ اسلام کی روشن خیالی، جدت پسندی اور میانہ روی کیخلاف تھی اور یہ خوبیاں پاکستانیوں میں موجود ہیں۔
[یہاں پرویز صاحب اگر چاہتے تو تھوڑی تفصیل میں جاکر امریکہ کی طالبان کیلۓ حمائت پربات کرسکتے تھے اور ان کی وجوہات بھی بیان کرسکتے تھے۔ مگر چونکہ یہ کتاب کے تھیم کیخلاف تھا اسلۓ پرویز صاحب بات کو گول کرگۓ ہیں]۔
جب طالبان حکومت میں آۓ تو ہمارے تعلقات ميں سرد مہری آنے لگی۔ طالبان نے جو افغانستان میں امن قائم کیا وہ قبرستان کی طرح کا تھا۔ ہم نے طالبان کی حمائت زمینی حقائق کی بنیاد پر کی تھی اور اگر ہم ان کی حمائت نہ کرتے تو اپنے لۓ مغربی سرحد پر ایک اور دشمن بنالیتے اور قیادت کا خلا شمالی اتحاد پر کرلیتا جو پاکستان کیخلاف تھے۔ شمالی اتحاد کی حمائت ہندوستان، روس اور ایران کررہے تھے۔ لیکن اب ہم طالبان کی شکل میں ان سے بھی زیادہ خطرناک لوگ پیدا کرچکے تھے۔ اب ہم طالبان سے الگ ہوسکتے تھے۔ کسی بھی صورت ميں وہ اس حملے کی تاب نہ لا سکتے ۔ اسلۓ پھر ہم کیوں اس ڈکٹیٹرشپ کی حمائت میں اپنے مفاد کو داؤ پر لگاتے جو شکست کھانے والا تھا۔
دوسری طرف، امریکہ کی مدد کرنے کے فوائد بہت تھے۔
ایک، ہم اپنے معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ کرسکتے تھے اور بیرونی دہشت گردوں کا اپنی زمین سے سفایا کرسکتے تھے۔ ہم اکیلے یہ نہیں کرسکتے تھے اس کیلۓ ہمیں امریکہ کی مالی اور تکنیکی مدد کی ضرورت تھی۔
[ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کیوں اکیلے انتہاپسندی ختم نہیں کرسکتے تھے اور امریکہ کی مدد سے کیسے ہم نے یہ ختم کی۔ جبکہ ہماری نظر میں سواۓ تین چار سو انتہاپسندوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے باقی سبھی پاکستانی جنہيں ہم انتہا پسند کہتے ہیں ابھی بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں اور سکون سے رہ رہے ہیں]۔
ہم طالبان، القائدہ اور ان کے حواریوں ک دہشت گردی کے کئی سالوں سے شکار تھے۔ پہلی پاکستانی حکومتیں ان مزہبی انتہاپسند گروپوں کیخلاف ایکشن لیتے ہوۓ ہچکچاتی تھیں۔ جنرل ضیا نے ان کی حمائت اپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر کی اور نواز شریف ان کی مدد سےاسلام کے خلیفہ بننے کی راہ پر گامزن تھے۔ پرویز صاحب اپنے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں ہمیشہ سے ایک ماڈرن مسلمان رہا ہوں جو کبھی بھی انتہا پسندی کے حق میں نہیں رہا۔ میں نے ان کے خلاف تب کاروائی شروع کی جب فروری 2001 میں ان مدہبی انتہاپسند تنظیموں پر پابندی لگا ئی۔ لیکن اب ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم ان طاقتوں کیخلاف کھلی جنگ لڑسکیں۔
دوسرے، اگرچہ دہشت گردی کیخلاف اتحاد میں شمولیت سے ہم بین الاقوامی سرمایہ کاری سے محروم ہوجاتے مگر ہم اپنا خسارہ کم کرسکتے تھے اور اپنے اوپر لگی ہوئی پابندیاں ختم کرا سکتے تھے۔
تیسرے، ہم ایٹمی دھماکوں کے بعد الگ رہ جانے والی قوم کی بجاۓ مرکزی حیثیت حاصل کرسکتے تھے۔
[ ہمارے خیال میں جنرل ضیا نے جس طرح انہتاپسندوں کی حمائت صرف اپنی حکومت کی مظبوطی اور امریکہ کی مدد کی وجہ سے کی اسی طرح پرویز صاحب نے روشن خیالوں اور لبرل طاقتوں کی حمائت امریکہ کی خوشنودی کیلۓ کی تاکہ ان کی حکومت قائم رہ سکے]۔
[ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو خلیفہ کے روپ میں پیش کرنا بھی سیاسی فائدہ اٹھانا ہے تاکہ اتحادی نواز شریف سے خوف کھاتے رہیں اور اسے سیاست سے باہر رکھ کر پرویز صاحب آزادی سے حکومت کرتے رہیں۔ وگرنہ نہ ہی نواز شریف کا اسلامی نظام نافز کرنے کا ارادہ تھا اور نہ ہی وہ امریکہ کے خوف سے ایسا کرسکتے تھے]۔
[معاشی ترقی جو 911 کی بدولت ہمیں ملی پرویز صاحب کیلۓ تیسری ترجیح تھی۔ سب سے پہلی ترجیح ان کی اپنی حکومت مظبوط کرنا اور پھر فوج اور ملک کو بچانا تھا۔ ہم دعوے سے کہ سکتےہیں کہ اگر اب بھی پرویز صاحب کو اپنی حکومت بچانے کیلۓ بلوچستان کی بھی قربانی دینی پڑے تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے کیونکہ ہم پاکستانیوں کی یہی عادت رہی ہے]۔
جب پرویز صاحب نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ اس کا پاکستانی معاشرے میں ردِ عمل کیا ہوگا۔ یہاں پر وہ اس کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
پرویز صاحب کہتے ہیں کہ مُلّا تو اس کی مخالفت کریں گے اور گلیوں میں احتجاج کریں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ صوبہ سرحد جو کہ افغانستان کیساتھ ہے میں بھی ردِّ عمل ہوگا۔ سندھ خاص کر کراچی اور بلوچستان تو غیر جانبدار ہوں گے یا پھر کچھ نہیں کریں گے۔ اب رہا پنجاب جو پاکستان کا دل ہے۔ کیا پنجاب میں اس کا الٹا ردِّ عمل ہوگا؟ میرا خیال تھا کہ نہیں کیونکہ پنجابی حساس اور عملیت پسند لوگ ہیں۔ رہی بات کراچی کی جہاں بہت سارے مدارس ہیں جنہیں صوبہ سرحد کے انتہاپسند چلاتے ہیں وہاں ضرور گلیوں ميں احتجاج بلند ہوگا لیکن کراچی کی اکثریت اس احتجاج کی حمائت نہیں کرے گی۔ اسلۓ پاکستانی عوام کے متعلق میری سوچ کے مطابق مجھے یقین تھا کہ پورے پاکستان میں کوئی خاص ردِّ عمل نہیں ہوگا۔
[ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ پاکستانی عوام کی اکثریت سیاستدانوں کی خود غرضیوں اور وعدہ خلافیوں کی وجہ سے بے حس ہوچکی ہے اور اسی لۓ کسی نے نواز شریف کے جانے پر صداۓ احتجاج بلند نہیں کی۔ یہ بات پرویز صاحب کوبھی معلوم تھی یا ان کو بتا دی گئ تھی کہ لوگ سوۓ ہوۓ ہیں تم ان کی پرواہ نہ کرو۔ جب پاکستانی عوام نے اپنا آدھا حصہ گنوا کر کچھ نہیں کیا اور اس سے پہلے دو فوجی حکمرانوں کو طویل عرصے تک برداشت کرچکے ہیں تو اب وہ کیا کریں گے۔ یہ وہ وقت تھا اگر امریکہ پاکستان پر قبضہ بھی کرنا چاہتا تو پرویز صاحب اس کی بھی حامی بھر لیتے]۔
یہ تھا پرویز صاحب کا تجزیہ جو انہوں نے ٹھنڈے دل و دماغ سے کیا۔ رچرڈ آرمٹیج کی سفارتی آداب کے خلاف دھمکی نے میرے فیصلے پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ امریکہ اپنے مفاد میں فیصلے کرے گا اور ہم اپنے مفاد میں۔ لیکن رچرڈ آرمٹیج کی دھمکی نے پرویز صاحب کو اپ سیٹ ضرور کیا۔ یہ ایک فوجی کی شان کیخلاف ہے کہ وہ دھمکی کے جواب میں بڑھ کر دھمکی نہ دے اور کہے کہ کرلو جو کرنا ہے۔ لیکن پرویز صاحب مانتے ہیں کہ رچرڈ آرمٹيج بعد میں ایک اچھے آدمی اور پاکستان کے دوست ثابت ہوۓ۔
[اس بات کی سمجھ نہیں آئی ایک طرف رچرڈآرمٹیج کی دھمکی کو سرِ بازار اچھالا اور خود کو حقیر اور بےبس ثابت کیا اور دوسری طرف اسی شخض کی تعریف بھی کردی۔ اس شخص کے بیان کو سفارتی بےادبی بھی قرار دینا اور بعد میں اسے اچھا شخص کہنا کیا یہ دوغلا پن نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستانی وزیرِ خارجہ نے بھی اسی قسم کا بیان دیا ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو اس کا حال بھی عراق جیسا ہوتا تو پھر ایسے شخص کو اچھا کہنا صرف امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے زمرے میں ہی آۓ گا]۔
ستمبر 13،2001 کے دن امریکی سفیر وینڈی چیمبرلین صدر صاحب کے پاس مندرجہ ذیل ساتھ ڈیمانڈیں لے کر آئی۔ یہ سات مطالبات اس سے پہلے امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پہلے ہی ہمارے خارجہ آفس کو پیش کرچکا تھا حالانکہ وہ صرف زبانی تھے۔
1۔ سرحد پر القائدہ کی سرگرمیاں بند کردو، پاکستان سے ہتھیاروں کی سپلائی روک دو اور بن لادن کی ہرقسم کی مدد ختم کردو۔
2۔ امریکہ کو تمام فضائی سہولتیں مہیا کرو جہاں سے وہ فوجی اور انٹلیجینس کی کاروائی کرسکے۔
3. امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دہشت گردوں کیخلاف فوجی اور انٹیلیجینس کاروائیوں کیلۓ زمینی راستے دو جس میں ہرقسم کی ہوائی، بحری اور سرحدی رسائی شامل ہو۔
4. فوری طور پر امریکہ کو معلومات، امیگریشن کے متعلق اطلاعات اور اعدادوشمار اور اندرونی سیکورٹی کی معلومات فراہم کرو تاکہ امریکہ اسے ان دہشت گردوں کیخلاف استعمال کرے جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف دہشت گردی کی۔
5. سرِعام امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف ہونے والی دہشت گردی کی مزمت کرنا شروع کردو اورامریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف دہشت گردوں کیلۓ پاکستانی عوام کی سپورٹ کو ختم کرنا شروع کردو۔
6. طالبان کو تیل کی فراہمی اور رضاکاروں سمیت تمام چیزوں کی سپلائی بند کردو جو جنگ میں امریکہ کیخلاف استعمال ہوسکتی ہیں یا دہشت گردی کے کام آسکتی ہیں۔
7. اسامہ بن لادن اور اس کی القائدہ نے ہی دہشت گردی کی ہے اور اگر طالبان اسامہ بن لادن اور القائدہ کا ساتھ نہیں چھوڑتے اور اسے امریکہ کے حوالے نہیں کرتے تو طالبان کیساتھ سارے سفارتی تعلقات ختم کردو اور اسامہ بن لادن اور القائدہ کو تباہ کرنے کیلۓ امریکہ کی مدد کرو۔
پرویز صاحب کہتےہیں کہ ان میں سے کچھ مطالبات تو بچگانہ معلوم ہوتے تھے جیسا کہ مقامی آبادی کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حمائت پر مجبور کرو۔ اس طرح کی ڈیمانڈ کا انحصار تو دہشت گردی کیخلاف مقامی حمائت اور راۓ عامہ کی آزادی کی حدود میں رہ کر ہی کیا جاسکتا تھا۔ پرویز صاحب اس ڈیمانڈ کو بھی عجیب خیال کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اور القائدہ کے دہشت گردی ميں ملوث ہونےکے ثبوت فراہم کرو حالانکہ امریکہ خود یہ نہیں جانتا کہ واقعی اسامہ اور القائدہ 911 کی دہشت گردی ميں ملوث ہیں کہ نہیں۔ پرویز صاحب نے یہ بھی خیال کیا کہ اگرافغاننستان اسامہ اور القائدہ کو پناہ دیۓ رکھتا ہے تواس کیساتھ سفارتی تعلقات توڑنا بھی خقیقت پسندی نہیں تھی کیونکہ ایک تو جب تک طالبان کی حکومت ختم نہیں ہوجاتی امریکہ کو افغانستان میں رسائی درکار تھی اور دوسرے یہ دوسرے ملک کے اندرونی معاملات ميں دخل اندازی تھی۔ لیکن جلد بازی میں تیار کی گئ اس فہرست کیخلاف کسی بحث کی گنجائش نہیں تھی۔ ہمیں دہشت گردی کو ختم کرنے کی ڈيمانڈ پر کوئی اختلاف نہیں تھا ہم امریکہ پر دہشت گردی کے حملے سے پہلے ہی دہشت گردی کیخلاف اقدامات کررہے تھے۔
[پرویز صاحب نے صرف ایک بات کو پاکستان کے ذاتی معاملات ميں دخل اندازی قراردیا ہے حالانکہ اگر دیکھا جاۓ تو سات کے سات نقاط اسی زمرے میں آتے ہیں۔ جب پرویز صاحب کے پاس بحث کی گنجائش ہی نہیں تھی تو پھر یہاں پر تاولیں گھڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں “ڈاہڈۓ کا ستیں ویں سو ہوندا اے” یعنی اگر طاقتور ایک سو بیس کو بھی سو کہ دے تو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہاں پرویز صاحب دوبارہ یہی کہ سکتے تھے کہ امریکہ سپر پاور تھا اور ہم بے بس تھے]۔
ہم ان میں سے دو یا تین ڈيمانڈیں نہیں مان سکتے تھے۔ ہم کیسے یہ برداشت کرسکتے تھے کہ امریکہ کو پاکستان کی فضائی حدود اور ہوائی اڈوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے۔ ہم نے صرف ایک ہوائی پٹی استعال کرنے کی اجازت دی جو ہمارے حساس مقامات سے دور تھی۔ ہم امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے، بندرگاہیں اور سرحدی علاقے استعمال کیلۓ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ ہم نے بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ ہم نے امریکہ کو صرف دو ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی جوکہ شمسی بلوچستان اور جیکب آباد سندھ میں تھے اور صرف انہیں سازوسامان اور جہازوں کی ریکوری کیلۓ استعمال کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ ہم نے امریکہ کو کوئی کھلی چھٹي نہیں دی۔
[پرویز صاحب ہمیں بھولا سمجھتے ہیں۔ ایک طرف کہتےہیں کہ ہوائی اڈے ہم کیسے دے سکتے تھے اور دوسری طرف کہتےہیں کہ دو ہوائی اڈے دیۓ۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ ابھی تک امریکی فوج جیکب آباد کا ہوائی اڈہ سنبھالے بیٹھی ہے حالانکہ طالبان کی حکومت ختم ہوۓ پانچ سال ہوچکے ہیں۔ سننے میں تو یہ بھی آيا ہے کہ امریکہ نے جب چاہا اور جہاں چاہا پاکستانی فضائی اور سمندری حدود استعمال کیں مگر حکومت نے پاکستانی عوام کو اس کی کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی]۔
اس کے علاوہ باقی مطالبات کو ہم پورا کرسکتے تھے۔ پرویز صاحب کو خوشي ہے کہ امریکہ نے ان کی تجاویز بغیر کسی غصے کے مان لیں۔ پرویز صاحب کو یہ سن کر دکھ ہوتا ہے جب لوگ کہتے ہیں پرویز صاحب نے امریکہ کےسارے مطالبات کولن پاول کیساتھ فون پر بات چیت کے دوران ہی آنکھیں بند کرکے مان لۓ تھے۔ پرویز صاحب کہتے ہیں کہ کولن پاول نے ہمیں کوئی مطالبات پیش نہیں کۓ تھے بلکہ یہ مطالبات سفیر نے تیسرے دن پیش کۓ تھے۔
[ لوگ اسلۓ یہ سمجھتے ہیں کہ پرویز صاحب نے فون پر ہی سارے مطالبات مان لۓ تھے کیونکہ پرویز صاحب کو اپنی حکومت بھی بچانا تھی اور پھر کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ کے مصداق وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ جو وجوہات پرویز صاحب نے مطالبات ماننے کے حق میں دی ہیں ان سے تو یہی لگتا ہے کہ پرویز صاحب نے ان مطالبات کو ماننے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی ہوگی۔ جییسا کہ ہم پہلے کہ چکے ہیں کہ اگر پرویز صاحب کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ وہی کرتا جو پرویز صاحب نے کیا کیونکہ ہمیں ملکی مفاد سے زیادہ اپنی کرسی پیاری ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق نواز شریف نے بھی کی ہے مگر ساتھ اس لاحقے کے ساتھ کہ وہ اسمبلی کے ارکان کیساتھ ضرور مشورہ کرتے۔ یہ لاحقہ بھی انہوں نے اسلۓ لگایا ہے کہ وہ اب حکومت میں نہیں ہیں۔ اگر یہاں پر کوئی محبِ وطن حاکم ہوتا تو وہ ضرور قوم کو ساتھ لے کرچلتا اور اچھے طریقے سے امریکہ کیساتھ معاملہ کرتا۔ ہم یہ بات پھر دہراۓ دیتے ہیں کہ اگر حکومت محبِ وطن ہوتی تو اس واقعے سے جانبر ہونے کے بعد ضرور ایسے اقدامات کرتی جن کی وجہ سے ہمیں اس طرح کی صورتحال سے دوبارہ دوچار نہ ہونا پڑتا۔ ہم اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 2001 میں کھڑے تھے اور اگر آج اسطرح کے مطالبات دوبارہ پیش کۓ جائیں تو ہمارے پاس سواۓ انہیں ماننے کے کوئی اور چارہ نہیں ہوگا]۔
پرویز صاحب کہتے ہیں کہ فیصلہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنی کابینہ سے رجوع کیا۔ ان کی توقع کیمطابق وزیروں نے گلہ کیا کہ ان سے مشورہ نہیں لیا گیا۔ اس کے بعد کور کمانڈروں کی میٹنگ میں بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ پرویز صاحب نے اپنا سارہ تجزیہ ان کے سامنے پیش کیا جس کی رو سے انہوں نے یہ فیصلہ کیا اور تب تک تمام سوالات کے جوابات دیۓ جب تک سارے خدشات دور نہیں ہوگۓ اور پھر سب نے ان کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد 19 ستمبر کو پرویز صاحب نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم کے سامنے اپنا فیصلہ رکھا۔ ان کی توقع کے مطابق ردِّعمل محدود اور قابلِ کنٹرول تھا۔
اس کے بعد انہوں نے ہر قسم کے لوگوں سے ملنا شروع کیا۔ ستمبر 18 اور اکتوبر 3 کے درمیان پرویز صاحب سکالروں، چوٹی کے ایڈیٹروں، مشہور کالم نگاروں، پروفیسروں، قبائلی سرداروں، طالبعلموں اور مزدور یونینوں کے لیڈروں سے ملے۔ اکتوبر 18 کو پرویز صاحب ایک چائنیز وفد سے بھی ملے اور اپنے فیصلے پر ان سے بات چیت کی۔ اس کےبعد وہ سارے ملک میں فوج کی بیرکوں میں گۓ اور فوجیوں کیساتھ تبادلہء خیال کیا۔ ہر ایک کو یہی خدشہ تھا کہ اگر افغانستان پر بمباری کی گئ تو بہت ساری مسلم جانیں ضائع ہوجائیں گی۔ پرویز صاحب نے بھی اس خدشے سے اتفاق کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ سب سے پہلے مُلّا عمر سے مطالبہ کریں گے کہ وہ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو نکال دیں۔ اس طرح افغانستان امریکہ کے حملےسے بچ سکے گا۔
اس طرح فیصلہ صرف دوآدمیوں کے ہاتھ میں تھا۔ ایک مُلّا عمر اور دوسرا اسامہ بن لادن۔
No user commented in " ان دی لائن آف فائر – 20 "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply