پچھلے چند ہفتوں سے ججز کی تقرری کے مسئلے پر عدلیہ اور حکومت میں چپقلش جاری ہے۔ عدلیہ چاہتی ہے کہ اس کی سفارشات کی بنیاد پر جج مقرر کئے جائیں اور حکومت چاہتی ہے جج اس کی مرضی سے تعینات ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حکمران جو ججوں کی تقرری اپنی مرضی سے چاہتے ہیں خود مقدموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے سسٹم کا باوا آدم ہی نرالا ہے یعنی ملزم خود جج مقرر کرنے پر بضد ہیں اور چاہتے ہیں وہ جج عدلیہ میں بٹھائیں جو ملزموں کے حق میں فیصلے دے سکیں۔ اس سارے معاملے میں حکومت کے دوسرے دو بڑے ستون یعنی فوج اور اسٹیبلشمنٹ بالکل خاموش ہیں اور نہ ہی ہمارے آقا اس جھگڑے میں مداخلت کر رہے ہیں۔
ہمیں امریکہ سمیت یورپ میں ججوں کی تعیناتی کا نظام بہت پسند ہے۔ چیف جسٹس کے علاوہ بڑی عدالتوں سے لیکر چھوٹی عدالتوں کے جج ووٹنگ سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور عوام انہیں منتخب کرتے ہیں۔ اس نظام کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ مقدمے کا فیصلہ جج نہیں بلکہ جیوری کرتی ہے اور جیوری بھی ایک سسٹم کے تحت عام پبلک سے منتخب کی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں اس طرح کے مسائل کو لٹکانے اور ان کا عارضی حل تلاش کرنے کا رواج پڑ چکا ہے۔ ایڈہاک بنیادوں پر خالی نشستوں پر ملازمین کی تقرری اس رواج کا نتیجہ ہے۔ نہ ایسے مسائل پارلیمنٹ میں زیر بحث آتے ہیں اور نہ عوامی سطح پر حزب اختلاف ان مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر سسٹم میں کوئی سقم ہے تو پارلیمنٹ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتی اور اس کا ہمیشہ کیلیے بہتر حل نکال لیتی۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ عدلیہ اور حکومت دونوں اپنی ضد پر قائم ہیں اور انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس جھگڑے کی وجہ سے جتنا مرضی لمبا عرصہ بیگناہ جیلوں میں سڑتے رہیں۔
حیرانی کی یہ بات بھی ہے کہ حکومت کی حلیف جماعتیں بھی باہر سے تماشا دیکھ رہی ہیں اور اگر کسی میں قومی خدمت کا جذبہ جاگتا بھی ہے تو وہ ایک مختصر سا بیان جاری کر دیتی ہے۔ مخلوط حکومتوں میں اکثر اقلیتی پارٹیاں زیادہ اہم ہوتی ہیں اور اگر وہ چاہیں تو حق سچ والی بات منوا سکتی ہیں۔ جس طرح ایم کیو ایم نے این آر او پر موقف اختیار کر کے حکومت کو پسپائی پر مجبور کیا اس طرح حلیف جماعتیں دوسرے اہم ملکی مسائل پر بھی حکومت کو اصولی فیصلے کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔
آپ کے خيال میں اس جھگڑے کا کیا حل ہو سکتا ہے۔
12 users commented in " ججز کی تقرری کا جھگڑا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackنوازشریف اپنے پتے نہایت خوبصورتی کے ساتھ چل رہا ہے۔ آخر ایویں ہی تو افتخار چوہدری پر اتنی انویسٹمنٹ نہیں کی تھی۔ 🙂
معاشرہ بدلے بنا کچھھ نہیں ہونے لگا اگر ظالم کا ظلم زمین بوس ہونے لگا تو اس کو بطانے کو اسی قوم سے لوگ سامنے آجاتے ہیں
دیکھیں گے چیف کے جانے کے بعد اگلا چیف کس کا چیف ہوگا
عدالت پہلے کرپٹ تھی اب بے بس ہے
ہرظالم اپنے دور کا یہاں لش پش ہے
————————–
ایک بات آپ سے “ بھی “ شیئر کرتے ہیں
دنیا میں ایک خالق ہے تو دوسرے سب مخلوق ہیں
خالق کی مخلوق میں غور کرنا ، انکی بناوٹ جاننا ان سے فائدہ کا زریعہ بنتا ہے اور انکے نقصان سے بچاؤ کا
اس کے ساتھ ہی اس سے خالق کی عظمت کا پتا چلتا ہے اور اسکی محبت ملتی ہے
اگر اس غوروفکر سے پہلی چیز تو ملے مگر دوسری نہیں تو
ایسا علم ایسا غوروفکر مادے کے نفع کے ساتھ مادہ کی محبت بھی دل میںڈال دیتا ہے
اسی کو مادہ پرستی کہتے ہیں
تو علم اصل میں وہی ہوا جس سے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے اور اسکی رضا کا پتا چلے
باقی سب کاروبار اور روزی روزگار ہے
تیل دیکھیئے اور تیل کی دھار دیکھیئے!
ان مسائل حل ججوں کی تقرری کے لیئے پارلیمانی کمیشن کی تشکیل ہے،جس میں اس وقت رکاوٹ جے یو آئی اور قاف لیگ ہیں،
دیکھیئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/02/100213_judiciary_executive.shtml
اس بارے میں دو رائے ہونی ہی نہیں چاہیں جو کہ پہلے سے آئین میں درج ہو۔ اس لیے حالیہ حکومتی اقدام خلاف آئین ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کے انتخابات کے دوران ہی اتنے گرما گرمی ہوجاتی ہے جسے دیکھ کر کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ عدلیہ میں بھی ووٹنگ کے ذریعے تعیناتی ہو۔ ہاں وکلاء کونسلز کے ذریعہ یہ کام نسبتا آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ حلیف جماعتوں کی خاموشی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ موجودہ اقدام صرف صدر یا پیپلز پارٹی کا ذاتی فیصلہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مسائل پر حق کا ساتھ دینا چاہیے نا کہ اونٹ بیٹھنے یا تیل کی دھار دیکھتے رہیں۔
اس مسئلہ کا واحد اعلی عدلیہ کے احکامات پر عمل کرنے ہی میں ہے۔ اس کے علاوہ ہر راستہ آئین سے متصادم نظر آتا ہے۔
محمد اسد آپکی بات درست مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ہمیشہ چیف جسٹس ایک ایماندار شخص ہی ہوگا؟
عبداللہ اصل بات یہی ہے کہ قانون کی سختی سے پابندی کی جائے تو بے ایمان کو بھی ایماندار بننا پڑتا ہے۔ اگر ایک چیف جسٹس آپ کو اچھا مل جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے کا تقرر کرتے ہوئے بھی اس کی اچھائیوں کو ملحوظ خاطر رکھے گا۔ دراصل ججز کی تقرری کا معاملہ کسی قدر خلافت سے ملتا جلتا ہے۔ جس میں ایک امیر اپنے ساتھیوں کی مشاورت سے اپنے نائب کو مقرر کرسکتا ہے۔ ممکن ہے سیاسی حلقہ عدلیہ میں بھی اپنی کرپٹ جمہوریت سے ملتا جلتا نظام ٹھوسنا چاہتے ہوں۔
مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ میں ججز اور پارلیمینٹ کی مشترکہ کمیٹی کی تشکیل سے ہرادارے کی فرعونیت کا راستہ روکا جاسکتاہے،ہماری آج جو اخلاقی حالت ہے اس میں اس طرح چیزیں تصور کر کے چلنا ہرگز فائدہ مند نہیں ہوگا!
اور جب آپ جانتے ہی نہیں کہ سیاسی حلقہ کیا چاہتا ہے تو اس پر بات کا فائدہ؟
اور تیسری بات کرپٹ صرف سیاست داں ہی نہیں ججز بھی ہیں اور رہے ہیں!اس لیئے اس معاملے میں بھی ایک چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا چاہیئے!
افضل صاحب۔۔ امریکہ میں سپریم کورٹ میں تعیناتی صدر کرتا ہے جس کو سینٹ سے منظوری درکار ہوتی ہے عوامی ووٹ سے منتخب نہیں ہوتے۔۔ کچھ ریاستی عدالتوں میں شاید کچھ مختلف طریقہ ہے لیکن فیڈرل عدالتوں میں صدر کی نامزدگیاں ہوتی ہیں اور جج کی مدت مقرر نہیں ہوتی
http://www.uscourts.gov/faq.html
برطانیہ میں بھی جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ہے اور عوام کے ووٹوں سے تقرری شاید نہیں ہوتی۔
http://www.judicialappointments.gov.uk/about-jac/9.htm
پاکستان میں ہر حکومت کا ایک نیا آئین ہوتا ہے جس کی تشریح کے لیے ہر پارٹی کا ایک شیر افگن ہوتا ہے اس لیے معاملات طے کرنا بہت مشکل ہوجاتے ہیں۔
معذرت کیساتھ ہم نے کچھ تبصرے اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر مٹا دیے ہیں امید ہے صاحب تبصرہ برا نہیںمنائیں گے۔
راشد صاحب، درستگی کا شکریہ۔
افضل صاحب!
راشد صاحب کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے مزید یہ کہنا چاہوں گا کہ یوروپ کے باقی ممالک میں بھی، میری معلومات کے مطابق، جج عوامی تائید یا ووٹ سے منتخب نہیں کئیےجاتے بلکہ انھیں جوڈیشنل کونسلز وغیرہ کی طرز کے آزاد ادارے جو اکثر و بیشتر حکموتی کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں۔ وہ ادارے ججز کو تعنیات کرتے ہیں۔
Leave A Reply