حکومت کی درخواست پر یو این او کا جو کمیشن بینظر کے قتل تحقیات کر رہا تھا اس نے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں کوئی نئی چیز نظر نہیں آئی اور نہ ہی کسی ایک شخص کو ذمہ دار ٹھرایا گیا بلکہ لاکھوں ڈالر ضائع کر کے صرف یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بینظیر کے قتل کی ذمہ دار مشرف حکومت ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ذرداری اپنی بیوی کے قتل کی ایف آئی آر سابقہ حکومت کے سربراہ کیخلاف درج کرواتے ہیں کہ نہیں۔ جنرل ضیاع نے بھٹو کو پھانسی اسی لیے دی تھی کہ قصوری کا جب قتل ہوا وہ ملک کا سربراہ تھا۔ مشرف کیخلاف ایف آر درج کرانے کیلیے بیرونی طاقتوں سے ٹکر لینے کے مترادف ہو گا جو کسی ڈرپوک آدمی کے بس کی بات نہیں۔

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ یو این اپنی تحقیقات سے قاتل کا سراغ لگا لے گی مگر یہاں تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا حساب ہوا۔ رپورٹ میں موجودہ حکومت کی اپنی تفتیش میں سست روی پر بھی تعجب کا اظہار کیا گیا ہے۔

لگتا ہے صدر ذرداری کی ہی درخواست پر رپورٹ میں خصوصی طور پر صدر ذرداری اور ان کے خاندان کو بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رپورٹ میں اس بات کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس قتل پر ہماری رائے آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔