جمشید دستی نے سپریم کورٹ سے مک مکا کر کے مستعفی ہونے کی جو روایت ڈالی ہے وہ مزید پھل پھول رہی ہے۔ آج مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رانا مبشر نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے جمشید دستی کو مستعفی ہونے کی رعایت نہ دی ہوتی تو آج رانا مبشر بھی جیل میں ہوتے۔ مگر کیا کیا جائے امیروں اور عوامی نمائندوں کیلیے سپریم کورٹ کے اصول الگ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ اس جعلسازی میں ارکان اسمبلی کو مجرم قرار دیتی اور انہیں جیل بھیجتی تا کہ وہ زندگی بھر دوبارہ انتخاب نہ لڑ سکتے۔ یہ سپریم کورٹ کی ہی ڈھیل ہے جو مستعفی ہونے والے ارکان دوبارہ انتخاب لڑ کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے ہیں۔

اگر عوام سمجھدار ہوتے اور انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی سمجھ آ سکتی تھی کہ اس نے ارکان اسمبلی  کو عوامی عدالت میں بھیجا اور عوام نے انہیں مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام بے بس ہے۔

سپریم کورٹ نے ان جعلسازوں کو مستعفی ہونے کی آپشن دے کر غریبوں کیساتھ مذاق کیا ہے اور پاکستانی عوام کیساتھ زیادتی کی ہے۔ جعلساز بھی اتنے بے شرم ہیں کہ اپنی غلطی ثابت ہو جانے کے باوجود دوبارہ انتخابات لڑ رہے ہیں۔ پتہ نہیں وہ کس منہ سے اسمبلی ميں بیٹھا کریں گے۔