آج بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے اور اکثریت کا خیال ہے کہ عوام کو ریلیف ملنے کی بجائے ان کی زندگی مزید تنگ کر دی جائے گی۔ مگر پچھلے بجٹوں کی روایت کو دیکھا جائے تو بجٹ انتے سخت نہیں ہوتے بلکہ بجٹ کے بعد سخت فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافے کا اعلان ہو گا جس پر پارلیمنٹ میں تالیاں بجائی جائیں گی۔ نہ پٹرول مہنگا ہو گا، نہ ویٹ یعنی ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگے گا اور نہ اشیائے صرف مہنگی ہوں گی۔ اس طرح حکومت اگلے چند روز اپنے بجٹ کی داد وصول کرتی نظر آئے گی۔
اصل بجٹ تو سارا سال پیش ہوتا رہے گا اور اس کی منظوری پارلیمنٹ سے بھی نہیں لی جائے گی۔ پچھلا سارا سال پٹرول، گیس اور بجلی مہنگی کی گئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ویٹ کا اطلاق بھی جولائی میں ہو گا اور اس کی منظوری بھی پارلیمنٹ سے نہیں لی جائے گی۔ حزب اختلاف بھی ویٹ کیخلاف کوئی احتجاج نہیں کرے گی۔ ویٹ پر جاوید چوہدری کا کالم پڑھنے کے لائق ہے۔
ہمارے اس بجٹ کی اہمیت اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بجٹ وزیرِ خزانہ کے بغیر تیار ہوا ہے۔ حکومت نے اپنی پچھلے سال کی روایت کو برقرار رکھا ہے اور اپنے اس عمل پر وہ شرمندہ بھی نہیں ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ بجٹ حکومت نے نہیں بلکہ قرض دینے والے بنیوں نے تیار کیا ہے۔
2 users commented in " بجٹ 2010-2011؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاللہ خير کرے
بجٹ تو وہ لوگ بناتے ہیں۔ جن کے دامن میں کچھ ہو۔ اور وہ سال بھر کے لئیے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کہ گزر بسر کیسے کرنی ہے۔ اگلے بجٹ کے لئیے وسائل میں اضافہ کیسے کرنا ہے۔ قومی ترقی کے لئیے کونسی کاوشیں کی جائیں گی۔امن و عامہ کے مسائل، بیروزگاری، تنگدستی ، جہالت، صحت، غربت ، افلاس وغیرہ سے کیسے چھٹکارا پانا ہے۔ تانکہ اس بجٹ میں جو کمی یا خامی رہ گئی ہے۔ جو وسائل دستیاب نہیں۔ جو سہولت یا ریلیف دینا مقصود تھا اور نہیں دیا جاسکا۔ قومی ترقی کے جو اہداف وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکے۔ ان وسائل کی دستیابی کے لئیے اس پورے سال انتھک کوشش اور محنت کرنی ہے۔ اگلے بجٹ میں صورتحال بہت بہتر کرنی ہے۔ اسی تواتر کے ساتھ ہر بجٹ اور اس سے اگلے بجٹ میں انتھک کوششوں اور مناسب منصوبہ بندی سے قوم کی نیا کو پار لگانا ہے۔ غریبوں سے نہیں بلکہ غربت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ قوم کے نونہالوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔ ترقی کے ثمرات سب میں پوری ایمانداری سے بانٹنے ہیں۔
لیکن ہمارے ملک کی ہر دلعزیز حکومتیں ہر دور میں اسکے بر عکس تماشہ لگاتی ہیں داد دہش کے ڈونگرے بسائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی پیٹھ تھپکی جاتی ہے۔ بجٹ، حکومت اور حکمرانِ وقت کی تعریف میں لمبی لمبی تقاریر کی جاتی ہیں۔ اسمبلی ہال میں ڈیسک بجائے جاتے ہیں۔ گلنار چہروں سے بلند بانگ دعوے کئیے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کبھی کبھار تنقید کر دیتی ہے۔ بجٹ جیسے تماشوں پہ حکومت پہ تنقید کرنے کے پس منظر میں حکمرانوں سے اپنی من مانی جائز ناجائز خواہشیں پوری کروانے کا سنہری اور نادر موقع ہوتا ہے۔ ضرورت پڑے تو بجٹ سیشن کے دوران واک آؤٹ کا مظاہرہ بھی کر لیا جاتا ہے ۔ حکومتی اراکان اپوزیشن کو بہ صد منت وسماجت لیکن درحقیقت اندرونِ خانہ ہر قسم کے تعاون اور اپوزیشن اراکان کی خواہشات(خواہشات جن کا قوم کے مفاد سے دور تک واسطہ نہیں ہوتا) ماننے کے یقین دہانی اور وعدوں کے بعد اپوزیشن کے اراکان واپس اسمبلی ہال تشریف لے آئیں گے۔قومی اسمبلی کا بجٹ سیشن ختم ہوگا۔ قابل صد احترام اراکین اسمبلی نوکروں ، ملازموں اور گارڈز کے لاؤ لشکر میں اپنے اپنے حلقوں اور گھروں کو سدھاریں گے۔ مشیرانِ کرام اور وزراء ایک دوسرے کا کندھا تھپتھاتے ہوئے یہاں وہاں کے بے فائدہ دوروں کا بوجھ اٹھانے نکل پڑیں گے۔
اخبارات ، میڈیا ، ٹی ویز، تنقید و تعریف میں دریا بہا دیں گے۔کالم سیاہ کئیے جائیں گے۔ بجٹ کی برکات گنوائی جائیں گی۔ تخمینوں کو درست اور غلط ثابت کیا جائے گا۔ توپ مارکہ قسم کے ٹی وی اینکرز بے مقصد اور لایعنی قسم کے مذاکروں کا اکھاڑہ جمائیں گے۔ بڑے بڑے جغادری “عظیم الشان“ بجٹ کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں گے۔ سرکار دربار سے وابستہ تنخوادار دانشور بجٹ میں چھ سو اناسی ارب روپے کو پورا کرنے کے لئیے حکمرانوں کی عقل و دانش کے قصوں میں قلابے ملائیں گے۔ بجٹ کی مخالفت کرنے والے رگیں تان اور نتھنے پُھلا منہ سے جھاگ اڑاتے بجٹ سے ذیادہ حکومت کے لَتے لیں گے۔
جس پہ پورے ملک کا کا دال دلیہ چلتا ہے اسکی کل مجموعی پیداوار کے نصف سے زائد یعنی پیداوار کے پچپن فیصد سے زائد ملک پہ بھاری سُود کے عوض قرضوں میں لگاتار اضافہ شترِ بے مہار کی طرح بے قابو ہو کر کس وقت ملک کی قومی خود مختاری اور برائے نام امن کی بھوک کے ہاتھوں بساط لپیٹ دے۔ عالم پناہ جان کی امان امریکہ کی سردردی تو ہوسکتا ہے مگر پاکستان کے بادشاہوں کا یہ مسئلہ نہیں۔ پاکستان کی غیرت اور قومی اثاثے عالمی مہاجنوں کے ہاتھ گروی ہوتے چلیں جائیں گے۔ آخر بجٹ میں خسارے کی چھ سو اناسی ارب روپے کم پڑنے والی رقم تو پوری کرنی ہے۔ جس میں سے یہی کوئی پچاس ارب کے لگ بھگ گھر والی یعنی بے نظیر غربت یا غریب سپورٹ پروگرام کے نام پہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی طرح غریبوں دان کرنے کے نام پہ اپنے ووٹروں میں بندر بانٹ کی جائے گی۔ فائدے ہی فائدے ملک کا مال بندربانٹ میں اور سب کے ھاتھ کڑاھی میں اور ثوابِ دارین الگ سے ۔ مشہوری پکی، ووٹ جیب میں۔ بلا سے اپنی جیب سے پائی گئی نہیں بلکہ آئی ہی ہے۔ ویسے بھی ہم مانتے نہیں تو کیا پوری دنیا کشکول کو ہمارا قومی نشان سمجھنے لگی ہے۔ قرضے ، امداد، خیرات ، بھیک سب چلے گا بس بابا کر بھلا سو ہو بھلا۔
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
بجٹ کے مسودے کو سنہری غلاف میں لپیٹ کر تاریخ میں سنہری الفاظ میں یاد کرتے ہوئے طاق نسیاں پہ رکھ دیا جائے گا۔ مگر
مگر ایک کے بعد دوسرا منی بجٹ آئے گا ۔ جو اول اول مہینے آدھ مہینے میں آئے گا۔ جُوں جوں کار سرکار کی بدنظمی اور شاہ خرچیاں بڑھیں گی ۔ تُوں تُوں منی بجٹس کا دورانیہ کم ہوتا جائے گا۔ مزدور کی کھال سے پسلیاں کچھ اور جھانکنے لگیں گی۔
شرفاء کا پیٹ کچھ اور سکڑ جائے گا۔ غریب کے گھر چولھے کے گرم ہونے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔ پندرہ سالہ اؤل خان بوڑھے ماں باپ کے لئیے دولاکھ کی ادائیگی کے عوض “خود کش بمبار جیکٹ“ پہن لیں گے۔ روز روز کی بھوک اور بے روزگاری سے تنگ اللہ وسایے کالعدم تحریکوں میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ شیداں اپنے بچوں کی بھوک سے پریشان بچوں سمیت نہر میں کُود جائیں گی۔ کریم بخش مینار پاکستان سے چھلانگ لگا دیں گے۔ سلیم بھیا سمندر کے سپرد ہوجائیں گے۔ بجٹ کے اعدادو شمار کے گنجلک گورکھ دھندے میں انہیں کون جانے گا۔
Leave A Reply