ايم ايم اے کے بلاوے پر حزب اختلاف کي کانفرنس تو کامياب رہي مگر کيا اس کي پاس کي ہوئي قراردادوں پر عمل بھي ہو گا کہ نہيں۔ جن باتوں پر ساري جماعتوں کا اتفاق ہوا ہے وہ ٹھيک ہيں مگر ان پر عمل کے وقت ساري جماعتيں اکٹھي رہ بھي سکيں گي کہ نہيں۔ سابقہ حالات تو يہ بتاتے ہيں کہ حزب اختلاف اس وقت بے بس ہے اور اس ميں تحريق چلانے کا دم نہيں ہے وگرنہ حکومت کو يہ جرات کبھي نہ ہوتي کہ وہ اپني مرضي سے مني بجٹ پيش کرتي رہتي اور خارجہ پاليسي ميں يو ٹرن ليتي۔
آج کے بعد اميد کم ہے کہ حزب اختلاف مل کر حکومت کے لۓ کوئی خطرہ ثابت ہو سکے گي۔ آج کے بعد حکومت کا جو بھي ايجنڈا ہے اس پر بلا روک ٹوک عمل ہو گا اور کوئي ماں کا لال اس کي راہ ميں رکاوٹ نہيں بنے گا۔
حکومت کا اب ايجنڈا کچھ اس طرح کا ہو گا۔
١۔ پاکستان کو ترکي کي طرز پر سيکولر بنانا
٢۔ انڈيا کے ساتھ کھلي تجارت کرنا
٣۔ کشمير کے مسئلے سے دستبردار ہو جانا
٤- اسرآئيل کو تسليم کرنا
٥۔ مولويوں کا ملک سے سفايا کرنا
٦۔ مدرسوں کو حکومت کے کنٹرول ميں لانا
٧۔ درآمدات پر کسٹم ختم کر کے ملکي صنعت کو تباہ کرنا
٨۔ پاکستان کو امريکہ کي کالوني بنانا
ان سب باتوں پر جو پاکستاني حکمران عمل کرتا رہا وہ برسراقتدار رہے گا ورنہ اس کو ہٹا کر اس سے بڑا غدّار حکومت کرنے لگے گا۔ يہي وجہ ہے کہ موجودہ حکومت وقفے وقفے سے ايسے اقدامات کر کے اپنے اقتدار کو طول دے رہي ہے مگر کہاں تک۔ انہي کوششوں ميں ايک اسرآئيل سے تعلقات کا آغاز ہے۔مگر ہر چيز کي ايک حد ہوتي ہے اس لۓ ايک دن اس حکومت کي بھي بس ہو جاۓ گي اور اس کا انجام بھي جنرل ضيا کي طرح ہوگا۔