بلاگر نعمان نے سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کی ہلاکت پر دل ہلا دینے والی تحریر لکھی ہے اور سوال پوچھا ہے کہ یہ درندے کون ہیں جنہوں نے دن دھاڑے چوک میں دو نوجوانوں کو مار مار کر ہلاک کر دیا؟
ہم اس تحریر پر عثمان صاحب کے تبصرے سے متفق ہیں یعنی جس معاشرے سے عدل و انصاف اٹھ جائے وہاں ایسے واقعات روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں۔
پرانے وقت اچھے تھے اگر کوئی چور پکڑا بھی جاتا تو اسے زدوکوب نہیں کیا جاتا تھا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ اس کا منہ کالا کرکے گلے میں ٹوٹے جوتوں کا ہار ڈال کر گدھے پر بٹھایا جاتا اور پورے شہر کا چکر لگایا جاتا۔ کبھی کبھی غلط کام کرنے والی کی ٹنڈ کر دی جاتی یا پھر سب کے سامنے ناک سے لکیریں نکلوائی جاتیں۔
لیکن تب میں اور آج میں بڑا فرق ہے۔ تب چور اچکے خال خال تھے اور شہر میں گنے چنے لوگ ایسے ہوتے تھے جن کی جیبیں کٹ جاتی تھیں یا جنہیں لوٹ لیا جاتا تھا۔ اب شہر میں شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو چور اچکوں کے ہاتھوں لٹ نہ چکا ہو۔ دور کیا جانا ابھی سیلاب زدگان کو جو سندھی ڈاکوؤں نے لوٹا ہے یہ عوام کا قانون ہاتھ میں لینے کیلیے کافی نہیں۔
اب جب مہنگائی زوروں پر ہو اور ہر آدمی ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ چکا ہو تو کیا خیال ہے اگر کہیں ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو لوگ اسے چھوڑ دیں گے۔ اسی سال کراچی جیسے مہذب شہر میں بھی عوام نے ڈاکوؤں کو نہ صرف مارا بلکہ زندہ جلا دیا۔
یہ دو نوجوانوں کا جھگڑا ہوا اور ریسکیو والوں نے انہیں ہجوم سے بچا کر بلڈنگ میں لے گئے۔ انہوں نے پولیس کو فون کیا لیکن پولیس پونے گھنٹے بعد پہنچی۔ پھر جب مجمع جمع ہو جاتا ہے اور لوگ انہیں ریسکیو والوں سے چھِن کر باہر لے آتے ہیں اور ڈنڈے مکے برسانا شروع کرتے ہیں تو کسی کو ہوش نہیں رہتا کہ وہ معلوم کرے کہ جنہیں وہ مار رہے ہیں کیا واقعی وہ ڈاکو ہیں۔ پولیس کی بھی یہ روایت رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ ایسے واقعات کو سپورٹ کیا ہے تا کہ مجرموں کو وہیں پر سزا مل جائے اور وہ کورٹ کچہری کے چکر سے بچ جائیں۔ انہیں بھی یہ معلوم نہیں ہو گا کہ مارے جانے والے بے گناہ شہری تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مبینہ پولیس مقابلے آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔
دو نوجوانوں کا اس طرح قتل ناقابل معافی جرم ہے اور پولیس سمیت مجرموں کو سزا ملنی چاہیے مگر حکومت اور عدالت کو عوام کی فرسٹریشن کیلیے بھی کوئی نہ کوئی بندوبست کرنا ہو گا وگرنہ جتنے مرضی سوموٹو ایکشن لے لیں اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔
17 users commented in " وحشی درندہ عوام "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہ واقعہ دیکھ کر مجھے خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہاں لوگ کتنے بے رحم، خونخوار اور آدم خور ہوتے ہیں اسکا اندازہ اس ویڈیو سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ تو بچے تھے لیکن اگر چور اور ڈاکو بھی ہوتے تو اس طرح سے سے انکو بیچ شہر میں کھلے عام مارنا، پھر نعش کو لٹکانا اور گسیٹنا انسانیت اور آدمیت کی پست ترین سطح ہے جہان وہ ہر مخلوق سے بدتر ہوتا ہے۔
اگر ان حالات میں بھی اس ملک میں اللہ کے عزاب نہ آئیں تو کیا آئیں۔ وہ لوگ جو مارنے والے تھے کیا سب پارسا تھے، مجھے یقین ہے کہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح کی چوری اور ڈکیتی میں خود بھی ملوث ہوگا کہ حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں۔
اگر کہیں زرداری، نواز شریف، اسفند یار اور الطاف حسین پہنچ جائیں تو لوگ انکے ہاتھ پاوں چومے گے لیکن گربان صرف انکے پکڑیں گے جس تک ہاتھ پہنچتے ہوں۔ کچھ برس قبل کراچی میں ایسا واقعہ ہوا، پھر لاہور میں، میں اس وقت بھی کہا تھا کہ اس رجہان کی حوصلہ شکنی کرو ورنہ بے گناہ بھی مارے جائیں لیکن لوگ خونخوار ہوچکے ہیں۔
بہت سال قبل پنجاب کے علاقے میں کوئی حافظ صاحب قرآن پڑھ رہے رھے کہ پاس رکھی موم بتی اس پر گر گئی اور قرآن کریم کے اوراق جلنے لگے، پڑوسن نے منظر دیکھ کر شور مچادیا اور اہلیان محلہ نے کسی تحقیق کے بغیر اس بندے کو بدترین تشدد کرکے جانبحق کردیا، مارنے والوں میں اکثریت ایسوں کی تھی جو سالوں قرآن کریم کھلنے کی زحمت نہیں کرتے اور کئی ایسے بھی جنہیں قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں آتا تھا۔ بعد میں حقیقت کھلی لیکن کسی نے توبہ نہیں کی، حکومت نے بھی کوئی کارائی نہیں کی۔
اس اندوناک واقعہ کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ عاصمہ چویدری اور ہمارے وہ سیاست دان کہاں ہیں جنہیں سوات کی ایک جالی ویڈیو تو نظر آئی تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ گھنونا اور شرمناک حقیقی منظر کیوں نہیں نظر آرہا ہے۔ کیوں احتجاج نہیں ہوا کیوں سڑکوں پر راتوں رات بینر نہیں لگے
یار یہ عوام کی فرسٹیشن نہیں گنڈا گردی ہے۔ اگر کوئی سسٹم سے تنگ آگیا ہے تو سسٹم کو بدلنے کی جدوجہد میں شامل ہو یہ کیا کہ خونخواری اور درندگی کا مظارہرہ کرے۔
ایسی لعنتی عوام پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ایسے مظلوم مقتولوں کی مائوں کی ہی بددعائیں لگی ہیں اس قوم کو ، اور ان پر زرداری اور سیلاب جیسی آفتیں مسلط کی گئی ہیں۔
جی مجھے میری نیند ہی واپس کر دے کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر کوئی جنونی ہر کوئی وحشی۔
علما کرام جو کہتے ہیں۔اس قوم کی منافقت کی وجہ سے عذاب نازل ہو رھے ہیں ان علما کرام کا مذاق اڑا کرمغرب کے پجاری کہتے ہیں ماحول کی آلودگی ھے۔
انسانیت سے دوری اورمنافقت بھی ماحول کی آلودگی ہی ھے۔
نہیں تو یہ ہمارے دماغ کی تاریکی کیسی ؟ یہ آنکھوں کا دھواں کیسا؟
یہ قوم عذاب كے قابل هے . اب الله كے عذاب كا انتظار كروں ; پاکستانى جاهل سيالكوٹ والو
دودن سے دونوں بھائیوں پہ ہونے والا ظُلم چپکا ہوا ہے۔ یوں لگتا یہ سب میرے سامنے ہونے والا ہے۔ میرے سامنے ہورہا ہے اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ اگے بڑھ اسے روک لوں۔ نیند سے لیکر نماز تک سحری و افطاری ہر لمحے ذہن کو جھٹکنا پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے وہ دونوں بھائی مجھ سے ۔ ساری قوم سے، تمام پاکستان سے انصاف مانگ رہے ہوں۔ میرا دل گھُت سا جاتا ہے ۔ عقل تسلیم نہیں کر رہی کہ میری قوم کے لوگ اسقدر پست اور باجماعت سندل بھی ہو سکتے ہیں۔
جیو کو ایک ملزم نے بتایا ہے کہ ڈی پی او وقار چوہان نے کہا تھا کہ آپ ان دونوں کو جان سے ماردو پولس اس کی ذمہ داری قبول کرلے گی اور ہم اسے پولس مقابلہ دکھادیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہی ڈی پی او ہے جو چیف جسٹس سے باز پرس پر کہہ رہا تھا کہ آپ مجھے نہیں ہٹا سکتے جس پر انہوں نے کہا کہ ہم سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلائے لیتے ہیں آپکو ہٹانے کے لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افضل صاحب یا تو آپ واقعی بھولے ہیں یا آپکو پوری صورت حال کا علم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں!
آج کراچی میں بھی پولس والوں کو عورتوں نے پیٹا ہے جو سیلاب زدگان کے لیئے جمع کیا پیسہ لوٹنا چاہتے تھے!
ویسے افضل آپکی اس پوسٹ سے یوں لگ رہا ہے کہ آپ سندھ اور کراچی کے ڈاکوؤں کا ذکر کر کے ان درندوں کے کرتوتوں کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟؟؟؟
اور رہےڈاکو تو وہ تو ہر جگہ موجود ہیں،خصو صا سندھ اور پنجاب میں تو انکا راج ہے!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100820_flood_theft_police_refusal.shtml
ابھی جیو پر رحیم یار خان کے لوگ بھی فریاد کررہے ہیں انہیں ڈاکوؤں سے بچایا جائے،
اور پچھلے دنوں جام پور کے لوگ بھی کچھ اسی طرح نوحہ کناں تھے!!!!
دونوں سگے بھائی مغیث اور منیب بٹ ایک انجینئر کے حافظ قرآن بیٹے تھے اور بہترین تعلیمی ریکارڈ رکھتے تھے ۔ بعض رپورٹوں کے مطابق تو جائے وقوعہ سے بھاگتے ہوئے ان دو بھائیوں کو ریسکیو 1122نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا مگر پولیس نے انہیں ہجوم کے حوالے کر دیا اور اپنی جانب سے اس ہجوم کو ڈنڈے فراہم کر کے ان کا کچومر نکالنے کی ہلہ شیری بھی دے دی۔
چیف جسٹس پاکستان کو اب کم از کم لنگڑے لوے انصاف کی عملداری کی ضرور لاج رکھنی چاہئے ورنہ انصاف اسی طرح گلیوں بازاروں چوراہوں میں رسوا ہوتا نظر آئے گا۔
.شہرِ اقبال و فیض
محسن عباس
ٹورنٹو، کینیڈا
بھرے مجمعے کے سامنے انتہائی سفاکی سے قتل کیے جانے والے دو بھائی
(کینیڈا میں مقیم صحافی محسن عباس کا اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں سر عام بھرے مجمع میں دو نوجوانوں کے قتل پر مضمون)۔
ایک ہفتے کی چھٹی گزار کر گھر آیا تو معلوم ہوا کہ سیالکوٹ میں میرے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر دو نوجوان بھائیوں کی بھرے مجمع میں المناک ہلاکت نے دنیا بھر میں طوفان برپا کیا ہوا ہے۔
گھر پر فون کیا تو بہن نے بتایا کہ یہ خبر تو پرانی ہو چکی ہے۔ میرے والد البتہ پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک رشتہ دار نے کہا کہ جٹوں اور کشمیریوں کی آپس میں لڑائی کا نتیجہ ہے۔
مجھے دو نوجوان بھائیوں کی موت کا تو بہت دکھ ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ دکھ اس معاشرے کی موت کا ہے جو ٹرالی سے زمین پر گرتی ہوئی لاشوں کے مسخ شدہ چہروں کی تصاویر انتہائی قریب جا کر بنا رہا تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اقبال اور فیض کے شہر سیالکوٹ میں اب انسان نہیں بلکہ صرف درندے ہی بستے ہوں۔
ماضی میں سیالکوٹ میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سر عام بازاروں میں پھرایا گیا
ہندوؤں کی معتبر کتاب مہا بھارت میں سیالکوٹ کا وجود چھ ہزار سال پرانا ہے۔ مگر اس طرح کی درندگی کی مثال ان ہزاروں برسوں میں تو نہیں ملتی۔ چودہ منٹ کی اس دردناک ویڈیو نے ابھی سر چکرا کے رکھ دیا ہے۔ نہ سو سکا نہ سمجھ میں آیا کہ کیا ہو رہا ہے پاکستان میں۔
صنعتی شہر میں کہا جاتا ہے کہ بعض اداروں کے مالکان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ پولیس مقابلوں کے ’سپیشلسٹ‘ ایس ایچ او اس شہر میں تعینات کیے جائیں۔ ماضی میں سیالکوٹ میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سر عام بازاروں میں پھرایا گیا۔
خبر سننے کے بعد مجھے سب سے پہلے ستائیس سالہ حافظ محمد عمران شہزاد نامی مقامی صحافی کی جان کی فکر لاحق ہوئی۔ اصل حقائق جاننے کے لیے حافظ عمران کو کال کی جو سارے واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔
اپنے سکول کے ایک مرحوم استاد یاد آ رہے ہیں جوقادیانیوں سے نفرت کرنے والے طالب علموں کو سبق یاد نہ کرنے پر رعایت برتتے تھے
اپنے کیمرے کی آنکھ سے اس درندگی کو فلم بند کرنے والا مقامی رپورٹر وکیمرہ مین حافظ عمران اب تک ٹھیک طرح سو بھی نہیں سکا اور اوپر سے ملنے والی دھمکیوں نے اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کا مسلسل خون خشک کیا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب سن دو ہزار دو میں سیالکوٹ میں ایک مقامی صحافی جعفر خان کو ٹھیک اسی دن جب ڈینیئل پرل کا قتل ہوا اس کی حاملہ بیوی کے سامنے قتل کیا گیا تھا جسے بعد میں مبینہ طور پر ’پولیس مقابلے‘ کا رنگ دیا گیا۔
حافظ عمران اور ایک دوسرے رپورٹر بلال خان کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر فوٹیج ضائع کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ میں اور دوسرے مقامی صحافی ان نوجوانوں کی زندگیوں کے بارے میں بڑے فکرمند ہیں۔
جہالت، ظلم اور فرقہ واریت کی کئی داستانیں میں نے بطور رپورٹر سیالکوٹ میں دیکھی تھیں جن میں قادیانیوں کے گھروں کو آگ لگا کر معصوم انسانوں کو زندہ جلانے سے لے کر عیسائیوں کے قتل بھی شامل ہیں مگر اس طرح کی المناک مثال نہیں ملتی۔
میں نے بچپن سے لے کر آج تک اس شہر کی دیواروں پر نفرت، فرقہ واریت، شیعہ کافر، مرزائی واجب القتل، چلو چلو یہاں چلو اور وہاں چلو کے نعروں کے علاوہ کوئی کام کی چیز نہیں پڑھی ہے۔
ہماری دادی اماں جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی وادی سے آ کر اس تجارتی شہر میں آباد ہوئی تھیں کہتی ہیں کہ اتنا بڑا ظلم تو انہوں نے بٹوارے کے دوران بھی نہ دیکھا تھا
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بابری مسجد پر حملہ ہوا تھا تو کچھ مذہبی جنونیوں نے نوجوانوں کو دن دیہاڑے بھارت کی چیک پوسٹ پر خالی ہاتھ حملہ کرنے پر آمادہ کر لیا تھا جس کے نتیجے میں کچھ مارے بھی گئے تھے۔
کینیڈا میں مقیم ایک سعودی قوانین کے حامی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے یہ بھاشن دیا کہ اس خبر کو اچھالنے سے عوام کو شعور ملے گا۔ انہوں نے اس کو مکمل طور پر ’تعلیمی ویڈیو‘ قرار دیا ہے۔
مجھے اپنے سکول کے ایک مرحوم استاد یاد آ رہے ہیں جوان طالبا علموں سے نرمی برتتے تھے جو قادیانیوں سے نفرت کرتے تھے۔ ہماری دادی اماں جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی وادی سے آ کر اس تجارتی شہر میں آباد ہوئی تھیں کہتی ہیں کہ اتنا بڑا ظلم تو انہوں نے بٹوارے کے دوران بھی نہ دیکھا تھا۔
اس واقع کے ملزمان کو سزا ملے نہ ملے مگر شہر کے اندر لوگ ’ریلیکس‘ ہیں اور زندگی کو معمول کے مطابق گزار رہے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ ایسا لگتا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
رحمان ملک کے بیان کے بعد سے سیالکوٹ میں ہمارے ہمسایوں کا پندرہ سالہ لڑکا اس انتظار میں ہے کہ کب قاتلوں کو لٹکایا جائے گا تاکہ وہ اپنے نئے سیل فون پر لٹکتی لاشوں کی وڈیو بنا کر یو ٹیوب پر لوڈ کر سکے
پاکستان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اس واقعے کے ملزمان کو بھی اسی جگہ لٹکایا جائے گا جہاں پر مقتول بھائیوں کو وحشیانہ تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔
لیکن سزا کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ہر طرف سے لٹکا دینے اور بالکل وہی سلوک کرنے کی باتیں پریشان کن ہیں۔ محترم وزیر کا اس طرح کا بیان دینا نئی بات نہیں۔ ویسے بھی رحمان ملک کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہی ہے۔
رحمان ملک کے بیان کے بعد سے سیالکوٹ میں ہمارے ہمسایوں کا پندرہ سالہ لڑکا اس انتظار میں ہے کہ کب قاتلوں کو لٹکایا جائے گا تاکہ وہ اپنے نئے سیل فون پر لٹکتی لاشوں کی ویڈیو بنا کر یو ٹیوب پر لوڈ کر سکے۔
لاشیں، جنگلی جانور، کیمرے، سیل فون، نفرتیں، قتل اور یہ سب۔ میں ان خیالوں میں گم تھا کہ کشتی میں سفر کرنے والی ایک بوڑھی خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ ’تم کہاں سے آئے ہو؟‘۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا جنگل (جہاں جانور کیمرے والے فون استعمال کرتے ہیں)۔
پولیس کی رپورٹ سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ دونوں لڑکے ہی ڈاکو تھے اور انہوں نے ہی بلال کو قتل کیا تھا۔ دیہاتی حادثاتی طور پر وہاںپہنچ گئے اور انہوں نے لڑکوں کو پکڑ لیا۔
پوری رپورٹ یہاں پڑھیے۔
http://thenews.com.pk/28-08-2010/National/1738.htm
http://www.jang.com.pk/jang/aug2010-daily/30-08-2010/col4.htm
http://ejang.jang.com.pk/?picname=1039.gif-Jang Multimedia-Windows Internet Explorer
افضل صاحب یہ اوپر کے دونوں لنک اس خبر کے حوالے سے تھے مگر پورے نہیں آپارہے ہیں،
اس لیئے اس لنک پر موجود صفحے میں نویں خبر سےآپ کو پتہ چل جائے گا کہ مغیث اور منیب کون تھے، مدعی دونوں کو جانتے تھے اس کے باوجود انہوں نے مقدمہ نا معلوم افراد کے خلاف درج کروایا،رہی خاور کی یہ بات کہ بڑے لڑکے کی لاش کے ساتھ سفید پٹکا نما چیز میں گولیوں کا کیا کام تو کسی کی لاش پر کچھ بھی ڈال دینا کیا مشکل کام ہے؟؟؟؟؟
http://www.jang.com.pk/jang/aug2010-daily/30-08-2010/mulkbharse.htm
Leave A Reply