موجودہ حالات کے بگاڑ کے سدھار کیلئے حکومت نےکئ ایسے اقدامات اٹھائے جن سے اس کی بردباری اور عقل مندی کا پتہ چلا ہے۔ سب سے پہلے تو جنرل صدر مشرف نے جیو پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جیو اور قوم سے براہ راست معافی مانگی۔بیشک  اس معافی کے محرکات عام پبلک کی رائے میں میڈیا اور عوامی رد عمل کا خوف تھا لیکن اس کے باوجود ایک موجودہ جنرل کا اس طرح کا معذرت خواہانہ رویہ ایک بہت بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔

دوسری حکمت عملی حکومت نے یہ اپنائی کہ وکلا کے احتجاج کو بزور طاقت روکنا بند کردیا اور پچھلے ہفتے وکلا نے پرامن ریلیاں منعقد کیں اور حکومت اپنے اس پلان میں بھی کامیاب ہوئی۔ وکلا نے امن و امان میں خلل نہیں ڈالا اور اگلے احتجاج کا اعلان کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وکلا نے احتجاج بھی کرلیا اور حکومت کو دوبارہ معافی مانگنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔

آج کی ہڑتال کے پرامن رہنے کا کریڈٹ جہاں اپوزیشن کو جاتا ہے وہیں حکومت بھی شاباش کی مستحق ہے کہ اس نے آج کی احتجاجی ریلیوں اور جلوسوں کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کیخلاف طاقت کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔ سیاستدانوں نے ریلیاں نکالیں، جلسے کئے اور پھر پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔ ہم مانتے ہیں کہ حکومت نے اس احتجاج کو ناکام بنانے کیلئے سینکڑوں سایسی کارکنوں اور لیڈروں کو دو روز قبل ہی گرفتار کرنا شروع کردیا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ ہڑتال والے دن کسی پولیس والے نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرکے ماحول کو خراب نہیں کیا۔

چونکہ یہ احتجاج موجودہ حکومت کیخلاف تھا اور موجودہ حکومت  فوج کی ہے اسلئے حکومت کو اس طرح کے نعرے بھی سننے پڑے۔ “بھوکے رہ گئے میں اور تو ۔ سارا کھا گیا جو ایچ کیو”

ان حکومتی اقدامات سے ہم کئ طرح کے نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کو پتہ چل گیا ہے کہ موجودہ پرامن احتجاج اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اسلیے اسے بھی میڈیا کی طرح تب تک آزاد چھوڑ دیا ہے جب تک یہ حکومت کیلیے خطرہ نہ بن جائے۔ اس طرح سیاستدانوں کی چھوٹی موٹی ریلیوں سے عوام کو اپوزیشن کی طاقت کا اندازہ بھی ہوجائے گا اور حکومت کی بدنامی بھی نہیں ہوگی۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کے کسی مشیر نے یہ مشورہ دیا ہو کہ لوگوں کو پرامن جلسے جلوسوں کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں اور ان کے اندر جو لاوا پک کر بعد میں آتش فشاں بننے والا ہے اسے ابھی سے خارج ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔

حکومت کا یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ ایک طرف وکلا اور اپوزیشن کا ہلکا پھلکا پرامن احتجاج جاری رہے اور دوسری طرف وہ چیف جسٹس جاوید افتخار کیخلاف جیوڈیشل انکوائری کو لمبی تاریخيں ڈال کر جنرل صدر مشرف کے اگلے پانچ سال کے انتخاب تک لٹکاتی رہے۔

ہماری نظر میں حکومت نے پرامن احتجاج کی اجازت دے کر عقل مندی کا ثبوت دیا ہے اور اس طرح ملک میں پرامن احتجاج کی ایک روایت ڈالی ہے۔ امید ہے یہ روایت جاری رہے گی اور اس روایت کے ملکی سیاست پر اچھے اور دورس اثرات مرتب ہوں گے۔

اب اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ وہ پرامن احتجاج کی روایت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور اختجاجی ریلیوں اور جلسوں کو پرتشدد نہ بننے دے۔ اسی میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کی بھلائی ہے۔

لیکن حکومت کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ پرامن احتجاج جن مطالبات کیلیے ہو رہاہے ان کیطرف بھی حکومت دھیان دے اور عوامی مطالبات کو مان کر اپنی عقل مندی کی عوام کے دلوں دھاک بٹھا دے۔ یہ نہ ہو کہ جونہی یہ ریلیاں اور جلوس بڑے اجتماعات میں بدلنے لگیں تو حکومت اپنے بچاؤ کیلیے انہیں طاقت سے دبانے کی دوبارہ کوششيں شروع کردے۔ جس طرح پہلے حکومت نے طاقت کا مظاہرہ کرکے اپنے لیے خطرات پیدا کیے اسی طرح آئندہ بھی حکومت خطرات میں گھر سکتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوامی مطالبات کو ایک ڈکٹیٹر کی نظر سے دیکھنے کی بجائے جمہوری انداز سے دیکھا جائے اور عوامی خواہشات کے آگے سر جھکا لیا جائے۔ ہمیں امید ہے حکومت اسی طرح اگلے انتخابات میں بھی عوامی رائے کو اولیت دے گی۔ یہی ایک طریقہ ہے اب عوامی غیض و غضب سے بچنے کا۔ عوامی طرز عمل بتا رہاہے کہ اب عوام میں شعور پہلے سے زیادہ بیدار ہوچکا ہے اور اگلے انتخابات میں دھاندلی سے نتائج بدلنا کسی کیلیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔

 اس پرامن احتجاج کی اجازت پر ہم حکومت کو مبارک باد دیتے ہیں اور ملک و قوم کیلیے اس تبدیلی کو نیک شگون قرار دیتے ہیں۔