خبر ہے کہ چند روز سے جاری شدید لوڈشیڈنگ کا صدر نے شدید نوٹس لے لیا ہے اور تیل گیس بجلی کے سربراہوں کو کل اسلام آباد طلب کر لیا ہے۔ صدر نے نوٹس تو اس طرح لیا ہے جیسے کوئی انہونی ہوئی ہے۔ بھئی بجلی کا بحران تو جب سے صدر زرداری کی حکومت آئی ہے تب سے جاری ہے۔ ان کو یاد ہو گا ان کے بجلی کے ایک سابق وزیر راجہ اشرف اپنی وزارت کے دوران  اس بحران کے خاتمے کے اتنے جھوٹے دعوے کرتے رہے کہ بعد میں وہ مذاق بن کر رہ گئے۔

بجلی کے شارٹ فال کی وجہ پیپکو کی پی ایس او کو رقم کی عدم ادائیگی ہے۔ کہتے ہیں اس وقت پیپکو کے ذمے پی ایس او کے دو سو ارب روپے واجب الادا ہیں۔ اب سیدھی سی بات ہے قرض کی مے کب تک چلے گی۔ پی ایس او نے تیل کی سپلائی بند کر دی اور اس طرح متعدد پاور ہاوسز کئی روز سے بند پڑے ہیں۔ ان حالات میں بجلی اور گیس کے اداروں کو اسلام آباد طلب کرنا بہت بڑی بیوقوفی یا عوام کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ اگر طلب کرنا ہی ہے تو وزارت خزانہ کو طلب کرو، پی ایس او کو قرض کی ادائیگی کرو۔ مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ہم یہ چاہتے ہی نہیں۔

صدر صاحب کو احساس ہی نہیں ہے کہ توانائی کے بحران سے ملک کو دہشت گردی کی جنگ سے بھی زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اگر صدر زرداری عوام کی بھلائی کیلیے کچھ نہیں کر سکتے تو پھر انہیں گھر چلے جانا چاہیے۔ لیکن نہیں  وہ تو ابھی اس مسلم لیگ ق سے اتحاد بنانے میں مصروف ہیں جس نے ایک ڈکٹیٹر سے مل کر ان کو لمبا عرصہ جیل میں رکھا اور ان کی بیوی کو جلاوطن۔ واقعی سیاست غیرت مندوں کا کھیل نہیں ہے۔