یھ سوال ہمارے ذہن میں کافی عرصے سے الجھن پیدا کیے بیٹھا ہے اور دن بدن اس الجھن میں اضافہ ہی کررہا ہے۔
آئیں سب سے پہلے سود کی تعریف کریں۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ جس کاروبار میں پروڈکٹ اپنی شکل نہ بدلے اور لینے دینے والے پر نفع نقصان کی بجائے ایک مستقل منافع ڈال دیا جائے اسے سود کہتے ہیں۔ جنس کے بدلنے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ آپ نے ایک جنس کے بدلے دوسری جنس خریدی یا بیچی۔ یعنی اگر آپ نے رقم دے کر منافع کے ساتھ رقم واپس لے لی تو اس کا مطلب ہے کہ پروڈکٹ نہیں بدلی۔
اسلام میں سود لینا اور دینا منع فرمایا گیا ہے۔ یہ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے اور یہ بھی ارشاد ہے ک سود مسلمانوں کے لیے سراسر گھاٹے کا کام ہے۔
اب موجودہ زمانے کے کچھ محققین کہتے ہیں کہ سود کو حرام قرار نہیں دیا گیا بلکہ ناپسند فرمایا ہے اور اس کے لین دین سے منع فرمایا گیا ہے۔ لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ سود لینا اور دینا اسلام میں حرام ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اسلام آنے کے بعد کتنے عرصے تک بلاسودی نظام چلتا رہا اور کب سب سے پہلے کس اسلامی مملکت یا کس اسلامی حکمران نے بلاسودی نظام ترک کیا اور کیوں۔ ہم تو پچھلے پچاس سال میں زیادہ تر پاکستان اور عموماً باقی اسلامی دنیا میں بلاسود بنکاری یا نظام کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہمیں تو اب تک کسی جگہ بھی کوئی ایسا بنکاری ماڈل نظر نہیں آیا جسے ہم مکمل بلاسودی نظام کہ سکیں۔
اس بحث سے قطع نظر سود حرام ہے یا خدا اور اس کے رسول صلعم کو ناپسند ہے یا یہ نقصان دہ ہے، آئیں پہلے یہ دیکھیں جو موجودہ بلاسود بنکاری دنیا کے کئی اسلامی ملکوں میں ہورہی ہے وہ ٹھیک ہے کہ نہیں اور پھر بعد میں يہ طے کریں گے کہ بلاسود بنکاری اس دنیا میں ممکن بھی ہے کہ نہیں۔ اس نقطے کی وضاحت سے ہم پہلے یہ واضح کردیں کہ ہمیں اس موضوع پر اپنے قارئین کی مدد کی اشد ضرورت ہوگی جو ملکر کچھ شواہد اور کچہ تجربات کی روشنی میں ہماری بات کو آگے بڑھائیں گے۔
پاکستان میں سب سے پہلے اسلامی نظام کی کھل کر بات فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا نے کسی مصلحت کی بنا پر کی اور اسلامی نظام کے کچھ حصوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ اسی سلسلے میں جنرل ضیا نے بنکوں میں بلاسودی کھاتے بھی کھولے۔ اس سے پہلے پاکستانی بنک ہر آدمی کو سال کے آخر میں ایک فکس منافع دیا کرتے تھے جو بعد میں ہرسال ایک آدھ پیسہ کم یا زیادہ کرکے دیا جانے لگا اور اسے بلاسود بنکاری کا نام دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے یہ صرف بنکاری کا ایک حصہ تھا۔ بنکوں کے سارے کاروبار کو سود سے پاک نہیں کیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنرل ضیا کا بلاسودی کھاتوں کا نظام بھی سود سے پاک نہیں تھا۔
پاکستان اور باقی دنیا میں بلاسودی بنکاری اب کیسے ہورہی ہے اس پر قائین اگر روشنی ڈالیں گے تو بات کو آگے بڑھایا جاسکے گا اور ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی کہ یہ نظام واقعی سود سے پاک ہیں یا نہیں۔
کینیڈا اور امریکہ میں کچھ عرصے سے بلاسود مورٹگیج کا نظام رائج ہے جسے یہ لوگ اسلامی مورٹگیج کا نام دیتے ہیں او یہ کاروبار مسلمانوں کی کافی تعداد کے ہونے کی وجہ سے منافع بخش بھی جارہا ہے۔ اس کاروبار کیلیے رقم مسلمانوں سے انویسٹ کرائی جاتی ہے اور انہیں سال کے آخر میں ان کا منافع ادا کردیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ سود پر رقم ادھار لینے کی بجائے، آپ کی پیشگی رقم کے علاوہ باقی گھر کی قیمت خود ادا کرکے مکان اپنے نام کرا لیتے ہیں اور آپ سے تب تک مکان کے اس حصے کا کرایہ لیتے رہتے ہیں جو ابھی پیشگی رقم کی ادائیگی کے بعد آپ کی ملکیت نہیں ہوا۔ اس دوارن آپ مکان کے کرائے کیساتھ ساتھ کچھ اضافی رقم ادا کرکے اس مکان کی ملکیت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح مکان کا کرایہ کم ہوتا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک آپ مکان کی پوری قیمت ادا نہیں کردیتے۔ اس کاروبار میں آپ کو مورٹگیج کی شرح منافع سے زیادہ رقم دینا پڑتی ہے مگر آپ مطمئن ہوتے ہیں کہ آپ سود سے بچے ہوئے ہیں۔ اس کاروبار میں کچھ شرائط اس طرح طے کی جاتی ہیں کہ کمپنی کا سرمایہ ڈوبنے کے کم چانسز ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی آفت یا مکان کی قیمت کےکم یا زیادہ ہونے کی صورت میں منافع پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے اور یہ آپ کی اور کمپنی کے موجودہ حصص کے مطابق نہیں ہوتا۔ پھر مکان کا پراپرٹی ٹیکس بلاسود مورٹگیج لینے والا دیتا ہے حالانکہ یہ ٹیکس بھی ہر ایک کے حصے کے مطابق تقسیم ہونا چاہیے۔ اسی طرح مکان کی مرمت بھی آپ ہی کے ذمے ہوتی ہے۔ ہماری نظر میں یہ سب فراڈ اور دھوکہ ہے اور مسلمانوں کو بلاسود بنکاری کے نام سے لوٹا جارہا ہے۔ یہ صرف اسی طرح نام بدلنے کی کاروائی ہے جس طرح جنرل ضیا نے بنکوں کے کھاتوں کے نام بدل کر سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور اپنے مزہب کیساتھ بھی فراڈ کیا۔
اب اگر موجودہ عالمی معاشی سیٹ اپ کو دیکھیں تو ہمیں کوئی ملک، کوئی صنعت، کوئی کاروبار اور کوئی گھر سود سے پاک نظر نہیں آتا۔ ملکی لیول سے اگر جائزہ لینا شروع کریں تو سعودی عرب تک قرضدار ہے اور وہ اس قرض پر سود ادا کررہا ہے۔ اب یہ سود کے قرض کی رقم سعودی حکومت اپنے ملک میں ہی خرچ کرتی ہوگی اور یہ ہرشہری تک پہنچتی ہوگی۔ پاکستان بھی اتنا اربوں روپوں کے قرض تلے دبا ہوا ہے کہ اس کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ ایک وقت تو کہا کرتے تھے کہ اگر پاکستان قرض نہ لے تو وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ تک ادا نہیں کرسکتا۔ پاکستان کیا دنیا کی ساری اسلامی مملکتوں میں صنعتوں کی اکثریت سود پر رقم ادھار لے کر کاروبار کررہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے ملازمین کو جو تنخواہ دی جاتی ہے اس میں سود شامل ہوتا ہے۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ جو بھی رقم ہماری جیب میں آتی ہے اس میں سود کی کچھ نہ کچھ ملاوٹ ہوتی ہے اور ہم سود سے پاک رقم سے اپنی کھانے پینے کی اشیا نہیں خرید رہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے کھانے پینے میں بھی سود کی ملاوٹ شامل ہے۔
اب آئیں اس بات پر غور کریں کہ اس سودی دور میں کیا بغیر سود کے کاروبار ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ہماری نظر میں بلاسودبنکاری کیلیے سب سے پہلی شرط معاشرے کی اقدار کا ٹھیک ہونا ہے یعنی معاشرے میں دھوکہ فریب، بے ایمانی اور چور بازاری قطعاً نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سودی نظام رائج ہی اس وقت ہوا تھا جب ایک آدمی کا دوسرے آدمی سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔ قرض دینے والے کو یہ یقین نہیں رہا تھا کہ قرض لینے والا انصاف کیساتھ اس کے کاروبار میں لگائی گئ اس کی رقم کا کاروبار میں منافع کی بنیاد پر پورا پوراحصہ دے گا۔ جب اسے قرض لینے والے کی نیت پر شک ہوا تو اس نے قرض پہلے سے طے شدہ شرائط پر دینا شروع کردیا جسے بعد میں سود کا نام دے دیا گیا۔
ہم نے کچھ عرصہ قبل فضایئہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کیساتھ اس کے ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔ ہم نے اس شخص پر اسلیے اعتبار کرلیا کہ وہ ہمارے بھائی کا فضائیہ میں ساتھی اور پھر بعد میں دوست تھا۔ اس نےاپنی نوکری کے دوران کئ عمرے اور حج بھی کررکھے تھے۔ وہ باریش اور پانچ وقت کا نمازی تھا۔ اس کی ویگنیں راولپنڈی اور واہ کینٹ کے درمیان چلا کرتی تھیں۔ اس نے ایک ویگن خریدی اور ہم نے صرف اسی ویگن میں اپنا پچیس فیصد حصہ نفع نقصن کی بنیاد پرڈال لیا۔ چند ماہ بعد اس کی ایک دوسری ویگن میں آگ لگ گئ اور اچھا خاصا نقصان ہوگیا۔ اسی دوران ہمیں اپنی رقم کی ضرورت پڑی اور ہم نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کردیا۔ وہ کہنے لگا کہ ویگن کو تو آگ لگ گئ ہے اور تمہارا ختم ہوگیا ہے۔ ہم نے جب اسے یاد دلایا کہ ہمارا حصہ تو دوسری ویگن میں ہے تو وہ جلال میں آگیا اور کہنے لگا کہ اس کے پاس ابھی رقم نہیں ہے اور جب ہوگی دے دے گا۔ یقین مانیں وہ رقم واپس لینے میں ہمیں دوسال لگ گئے اور اس دوران اس نے ہمیں منافع دینا بھی بند کردیا۔
اسی بداصولی اور بے اعتباری پر قابو پانے کیلیے سود متعارف ہوا اور لکھت پڑھت شروع کردی گئ۔ یہ الگ بات ہے کہ بااثر لوگ بنکوں سے سود پر لی گئ رقم سود دینے کی بجائے ساری کی ساری رقم ہڑپ کرجاتے ہیں اور حکومت بعد میں انہیں معاف بھی کردیتی ہے۔ صدر مشرف کے دور میں جہاں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے معاف کرائے گئے وہیں لوگوں کو سب سے زیادہ رقم سود پر قرض دی گئ جس سے لوگوں نے اشیائے ضرورت یعنی کاریں، ٹی وی، فریجیں اور پتہ نہیں کیا کیا خرید کر اپنی جان بنیے کے قبضے میں دے دی۔ اب تو سنا ہے آپ اپنی شادی بھی قرض لیکر کراسکتے ہیں۔
ہماری نطر میں دنیا اس وقت خرافات میں کھو چکی ہے جہاں قدم قدم پر دھوکہ اور فراڈ ہورہا ہے۔ لوگ زبانی وعدوں سے پھر رہے ہیں۔ سودا کرکے مکرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ ہرکام رشوت اور سفارش کے بغیر ممکن نہیں رہا۔ فراڈ کے بہت سارے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ جس معاشرے میں اتنی زیادہ برائیاں ہوں وہاں بلاسود بنکاری ناممکن ہے اور جو بھی اپنے کاروبار کو بلاسود بنکاری کہتا ہےاگر اس کے کاروبار کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا کاروبار بلاسود کاروبار کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
معاشرے میں بلاسود بنکاری کا نظام رائج کرنے کیلے پہلے معاشرے کو آئیڈیل معاشرہ بنانا ہوگا اور یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جتنا جنرل صدر مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کیلیے اپوزیشن کا متحد ہو کر جدوجہد کرنا۔
30 users commented in " کیا موجودہ دورمیںسود کے بغیر کاروبارممکن ہے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسود کے ممنوع ہونے کے متعلق بعد میں لکھوں گا اس وقت مجھے راولپنڈی جانا ہے اور پھر لاہور ۔ انشاء اللہ جمعہ کو لکھوں گا ۔ صرف یہ بتا دوں کہ سود اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک ہماری قوم تعّش چھوڑ کر صحیح مسلمان نہیں بن جاتی ۔
السلام علیکم،-
کینیڈا اور امریکہ میں جن سکیموں کا اپ نے ذکر کیا ہے کہ وہ سود کے بغیر مارٹگیج کے قرضے دیتی ہیں، اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس کی بنیاد مشارکہ اور مضاربہ پر ہے اور اس قسم کی بینکاری کے نظام کو علماء نے شریعہ کمپلائنٹ قرار دیا ہے۔ یہ بات اپ کی صحیح ہے کہ مارٹگیج کا جو پیسہ اپ نے بینک کو سود سمیت واپس لوٹانا ہوتا ہے، وہ اس مقدار سے مختلف نہیں ہے جو مشارکہ مضاربہ میں ہے۔ جو چیز اس کو شریعہ کمپلائنٹ بناتی ہے وہ اس کا طریقہ کار ہے۔ چونکہ اس طریقہ کار میں قرض دینے والا گھر کی ملکئیت میں شراکت دار ہے اس لیے جو منافع بھی وہ کمائے وہ equity پر ہے نہ کہ قرض پر۔ دوسری بات جو اپ نے کہی کہ گھر کے ٹیکس ، مرمت اور انشورنس کو دونوں حصہ داروں میں تقسیم نہیں کیا جاتا تو بات اپ کی صحیح ہے لیکن اپ یہ بھی دیکھیں کہ ٹیکس اور انشورنس سے فائدہ صرف خریدار کو ہو رہا ہے، نہ کہ قرضہ دینے والے کو۔ اسی طرح جو سہولیات گورنمنٹ اس علاقے کو پہنچا کر ٹیکس وصول کر رہی ہیں اس کا ثمرہ بھی خریدار ہی کو حاصل ہے نہ کہ قرض دینے والے کو۔ علماء کے نزدیک چونکہ فوائد صرف خریدار کو مل رہے ہیں اس لیے یہ شریعتا
علماء کے نزدیک چونکہ فوائد صرف خریدار کو مل رہے ہیں اس لیے یہ شریعتا جایز ہے کہ صرف خریدار ہی ان کی ادایگی کرے۔
اس کے برعکس آپ یہ بھی دیکھیں کہ اگر خریدار کسی وقت بھی یہ گھر بیچنا چاہتا ہے تو بیچ سکتا ہے اور اس سے جو منافع آتا ہے وہ تمام کا تمام خریدار کا ہوتا ہے، قرض دار صرف اپنا پیسہ اس میں سے نکال لیتا ہے۔ اگر دیکھا جاءے تو شراکت کی بنیاد پر یہ منافع بھی تو برابر کا تقسیم ہونا چاہیے۔
اس بلاگ پر میں کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کے کیا کوئی ایسی ویب سائٹ یا کتاب موجود ہے جہاں اس سلسلے میں یعنی بلاسود بینکاری کے متعلق مستند معلومات ہوں اور کیا کسی اسکالر نے اس سلسلے میں کوئی کام کیا ہے کہ آج کل پاکستان میں تقریبا ہر بینک اسلامی بینکاری کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں انکی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ میں نے ایک اسکالر کی کلاس کے دوران سنا کہ کرنسی نوٹ بھی اب سودی نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور مجموعی طور پر ایسی صورتحال ہے جس میں کسی کے لیے اس سے دامن بچانا قریب قریب نا ممکن ہو چکا ہے۔۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے کے ایک جگہ پڑھا کے سود لینے اور دینے والے دراصل اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔ اگر کوئی معاشیات کے استاد اور طالب علم ہوں یا بینکر حضرات تو وہ بھی اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
راشد کامران کیوں نہیں کمنٹ کر سکتے ؟ 😮
اسلام علیکم
ابھی تو بحثت سود اور اس کے مضمرات پر چل رہی ہے اس کو ابھی ایسے ہی آگے بڑھاتے ہیں۔ لیکن بعد میں اگر کوئی سٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر بھی روشنی ڈالے تو نوازش ہوگی۔
واسلام
درد آشنا
یہاں پر اسلام اور اکنامکس پر کافی مواد ہے اور سود پر بھی مضامین موجود ہیں۔
ابو حلیمہ صاحب
کینیڈا اور امریکہ میںمورٹگیج کی بنیاد جس پر بھی ہے ہمارا نقطہ یہ ہے کہ اگر کاروبار نفع نقصان کی بنیاد پر ہے تو پھر اس پر عمل ہونا چاہیے۔ آپ یہ بھی دیکھیںکہ اگر کرایہ دار مکان بیچ کر نفع کماتا ہے تو نقصان بھی وہی اٹھاتا ہے اس طرحقرض دینے والے کا رسک نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے اور یہی سودی نظام کا اصول ہے۔ دوسری بات ٹیکس اور انشورنس سے فائدہ مانا کہ کرائے دار کو ہوتا ہے مگر جب آپ ویسے مکان کرائے پر لیتے ہیںتو پھر یہ اصول وہاں لاگو نہیںہوتا۔ آپ صرف کرایہ دیتے ہیںاور بس۔ مالک مکان اسی کرائے سے ٹیکس کے اخراجات نکال کر باقی منافع پر حکومت کو ٹیکس دیتا ہے۔ اسلیے یہ دوہرا معیار کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ اس طرح تو قرض دینے والے کی پانچوں گھی میں ھوئیں۔ اس نے کرایھ بھی اپنی مرضی کا لیا، پراپرٹی ٹیکس بھی نہیںدیا اور کل کو اگر مکان کی قیمت گر گئ اور اس کے نقصان سے بھی بچ گیا۔
تمیزدار صاحب
راشد صاحب اسلیے اس مسئلے پر تبصرے سے گریز کررہے ہیںکہ ان کا علم بھی ہوسکتا ہے میری طرحسطحی ہو مگر ہم جوعام فہم معاملات ہیں ان پر تو بات کرسکتے ہیں مثلاً بنک صرف ایک کھاتے کو بلاسودبنکاری کا نام کیسے دے سکتا ھے، اگر حکومت خود مقروض ہو تو پھر اس کے ملازمین کی تنخواہ سود سے پاک ہے کہ نہیں، قرض پر جو صنعتیں چل رہی ہیں ان کی پروڈکٹس سود سے پاک کیسے ہوجاتی ہیں۔
یہ فورم چونکہ ابھی بی بی سی کی طرحاتنا پاپولر نہیںہوا کہ اسلامی سکالروںکی نظر سے گزرے اس لیے امکانات یہی ہیں کہ ہمیںخود ہی انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع سے تحقیق کرنی ہوگی۔ ہم نے یہی سوچ کر اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے شاید اس طرحہم کچھ تحقیق کرسکیںاور اپنے علم کو ایک دوسرے کیساتھ بانٹ سکیں۔
امریکہ اور کینیڈا میں کچھ سکالر تو یہاں تک کہ رہے ہیں کہ اپنی رہائش کیلیے گھر مورٹگیج پر لیا جاسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ کوئی نہ ہو اور آپ کا گزارہ نہ ہورہا ہو۔ اسی طرح وہ کار بھی سود پر لینے کی حمایت کرتے ہیں لیکن پھر شرط کیساتھ یعنی آپ کار کے بغیر نوکری پر نہیں جاسکتے یا دوسرے کام کرنے ناممکن ہيں تو۔
اور یہاں بھی۔
اسلام علیکم
میںنے سود پر تھوڑی سی تحقیق کی ہے اس ضمن میں کئی ایسے انکشافات ہوئے ہیںجو یہاںبیان کرنے کے قابل ہیں۔ یہ تحقیقی مواد کیونکہ تھوڑا سا طویل ہے اس لئے کیا میں اس کو اسی comments میں پوسٹ کروں یا مُجھے کوئی ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکتا ہے جہاں پر میںانہیںعلیحدہ سے پوسٹکر سکوں؟
واسلام
ذکریا
کارآمد لنکس کا شکریھ
دردآشنا
آپ ایسا کریں اپنی تحقیق ادھر ڈال دیں اور آپ کی اجازت سے ہم اسے الگ پوسٹ میںشائع کرکے لنک آپ کے تبصرے میںڈال دیںگے۔ اسطرح آپ کے نقطہ نظر سے دوسرے لوگوںکو بھی آگاہی ہوگی اور بحث بھی آگے بڑھتی رہے گی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
ذکریا لنکس کا شکریہ۔
بھائی میں نہ تو معاشیات دان ہوں نہ مذہبی اسکالر اسلیے تبصرہ کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ تیکنیکی موضوع ہے
آپ کا يہ بلاگ کل رات کو ہی ديکھ ليا تھا ليکن ساری رات اور اب صُبح سے اس شش و پنج اور گھبراہٹ ميں ہُوں کہ جس سسٹم ميں ہم اس وقت سانس لے رہے ہيں تو اس ميں تو کہيں بھی کوئ بھی اس سُودی سسٹم سے بچا ہُوا نہيں توکيا ہم سواۓ کُھلی ہوا ميں سانس لينے کے ہر کُچھ ايسا استعمال کر رہے ہيں جو جائز نہيں يہ سوچ کر ہی سانس رُکتا ہُوا محسُوس ہو رہا ہے رہنُمائ کے لۓ گو ہمارے پاس قُرآن پاک ہے ليکن بينکوں سے لے کر ہماری سيليريز جو انہی بينکوں کے through ہی آتی ہيں اور يہ بينک تو ان سيليريز پر بھی يہ سب کُچھ وصُول کر تے ہوں گے تو ايسے ميں تو نا چاہتے ہُوۓ بھی ہم حرام کھانے پر مجبُور ہيں جبکہ آپ کی دی گئ معلُومات کے مُطابق تو سعودی عرب تک کے پاس اس کا کوئ حل نہيں اور ہماری روز مرّہ استعمال کی اشياء ميں يہ خُود بخُود شامل ہو جاتا ہے تو انفرادی طور پر اگر ہم بچنے کی کوشش بھی کريں تو کوئ صُورت نہيں ہے ايسی جو ہميں اس سے بچا سکے کون بتاۓ گا ہميں جبکہ ہم لوگ تو بِلا سُود بينکاری کو سُود سے پاک سمجھ کر مُطمئن ہو جاتے ہيں جبکہ حقيقت ميں ايسا ہے نہيں دردآشنا بھائ آپ کے پاس کيا معلُومات ہيں؟کيا بتانا پسند کريں گے؟
[shahidaakram], ABUDHABI, متحدہ عرب امارات
اسی سلسلے کی ایک کڑی پلاسٹک منی یعنی کریڈیٹ، ڈیبٹ اور اے ٹی ایم کارڈ بھی ہیں۔ میں نے کچھ اسکالز کے لیکچرز کے دوران سنا کے دو لوگوں کے درمیان براہ راست لین دین میں تیسری پارٹی کا کمیشن بھی شرعی اعتبار سے متنازعہ حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ پلاسٹک منی استعمال کرنے پر ہمارے نہ جانتے ہوئے بھی ایک تیسری پارٹی ہر ٹرانزیکشن پر کچھ نہ کچھ وصول کرتی ہے۔۔ جس پر ابھی تک کچھ دو ٹوک رائے سننے میں نہیں ملی۔ مجھے جو چیز سب سے زیادہ تنگ کرتی ہے وہ یہ کے اگر کوئی بینک اسلامی بینکنگ شروع کرتا ہے اسکا مطلب اسکی اب تک کی بینکنگ غیر اسلامی تھی۔۔ بینکس کسطرح اسلامی اور غیر اسلامی بیکنکاری کے درمیان فرق کرتے ہیں ؟ جبکہ مجموعی طور پر وہ ایک ہی منافع دکھاتے ہیں جسکی بنیاد پر اسٹاک مارکیٹ میں انکے شیر کی قیمت متعین ہوتی ہے۔۔ کم علمی کی معذرت اگر کچھ بے وقوفانہ قسم کے سوالات ہیں تو۔
اسلام علیکم
چونکہ سود ہمارے معاشرے کا بلکہ دنیا میںہر معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے اور آج کے دور میںجیسا کے ہم دیکھتے ہیںکہ اس بچنا بہت مشکل ہو گیا ہے اس لئے یقینا اس کا گناہ تو ہے لیکن ذیادہ گنا تو ان لوگوں کے سر ہی جاتا ہے جو اس نظام کے کرتا دھرتا ہیں۔ ہاں اپنے طور پر انسان جہاںتک اس لعنت سے بچ سکتا ہے بچنا چاہئے ۔ لیکن فی الوقت تو یہ مشکل ہے کہ انسان یہ سوچ کر باہر نکلنا ہی چھوڑدے کہ سڑکیں سودزدہ ہیں یاں نماز پڑھنا ہی چھوڑ دے کہ جائے نماز میںکہیںنہ کہیںسود کی ملاوٹ ہوئی ہوگی۔ سو میرے خیال میںہمیںاس مسئلے کے حل پر سوچنا چاہئے انشااللہ میری اور میںاُمید کرتا ہوں کہ آپ سب کی بھی یہی کوشش ہوگی کہ سود کے صحیحتعین کے بعد اس کے حل پر بھی بحث کی جائے۔
سُود کی تعریف :
سود کی تعریف:
اسلام نے سود کی ایسی تعریف کی ہے جس سے بعض ایسی چیزیں بھی جو عرف عام میںسود نہیںسمجھی جاتیں سود کے دائرہ عمل میںآجاتی ہیں اور وہ بھی بنی نوع انسان کے لئے ناجائز ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے سود کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ کام جس پر نفع “یقینی“ ہو۔ اس اس تعریف کے ماتحت جتنے ٹرسٹ ہیںوہ سب ناجائز سمجھے جائیں گے۔ کیونکہ ٹرسٹ کی غرض یہی ہوتی ہے کہ مقابلہ بند ہو جائے اور جتنا منافع تاجر کمانا چاہیں اتنا نفع ان کو بغیر کسی روک کے حاصل ہو جائے۔ مثلا ہمارے ملک میںاگر چند بڑے تاجر اکٹھے ہو کر کسی چیز کی ایک قیمت مقرر کر لیں اور ایک دوسرے کا تجارتی مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک چیز جو دو روپے کو تجارتی اصول پر بکنی چاہئے وہ اُسے پانچ روپے میںفروخت کریں گے۔ ٹرسٹ سسٹم ایک نہایت ہی خطرناک چیز ہے اور قوم کی اقتصادی حالت کو تباہ کر دیتا ہے۔
یہی حال کارٹل سسٹم کا ہے۔ کارٹل سسٹم بھی ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے۔ ٹرسٹ سسٹم میںجہاں ایک ملک کے تاجر آپس میںسمجھوتہ کر کے تجارت کرتے ہیں وہاںکارٹل سسٹم میں مختلف ممالک کے تاجر آپس میںاتحاد پیدا کر لیتے ہیں۔
اسی طرح ذخیرہ اندوزی بھی ایک ایسی چیز ہے جس پر ذیادہ تر نفع یقینی ہوتا ہے
وقت کی کمی کے باعث میں اس وقت ذیادہ نہیں لکھ سکتا لیکن امید ہے کہ آپ لوگ اس سلسلے کہ آگے بڑھائیں یہاں تک کہ ہم اس مسئلے کے حل پر بات کر سکیں۔۔۔۔۔
وقت کی کمی کی وجہ سے میںایک بار پھر معذرت خواہ ہوں
شاھدہ باجی دیکھا جائے تو کُھلی ہوا بھی سود سے پاک نہیںکیونکہ اس میںبھی سودزدہ دھواں شامل ہے (:
درد آشنا بھائ آگاہی بھی بعض اوقات ايک عزاب ہو جاتی ہے جب ہميں کسی بات کا علم نہيں ہوتا تو ہم بہت آرام سے يہ سوچ کر رہ رہے ہوتے ہيں کيونکہ لا علم ہوتے ہيں ليکن اب جبکہ دُنيا اور دُنيا سے آگاہی صرف ايک کلک دُور ہے تو جاننے والے کے لۓ جہاں يہ ايک روشنی ہے وہيں اگر کوئ ايسی بات علم ميں آ جاۓ جس سے دماغی stressميں اضافہ ہو جاۓ تو کيا کہيں گے جيسا کہ آپ نے تو بھائ ميرے سانس لينے پر بھی پابندی لگا دی کہ کوئ نعمت تو ايسی ہے جس کے لۓ ہم اپنے اللہ کے شُکر گُزار ہيں جس کے لۓ کسی کا احسان مند نہيں ہونا پڑتا اور اس کے لۓ ہم فی الحال تو شُکر گُزار ہيں ليکن کہہ نہيں سکتے کب اس ميں بھی پيوند کاری ہو جاۓ سُود کے ،ميں بارش کی بھی مثال دينا چاہ رہی تھی ليکن اب تو اُس ميں بھی seeding ہونے لگی ہے اس مرتبہuaeميں پہلے سے اعلان کر ديا گيا تھا کہ يو اے ای ميں ہم لوگ معمُول سے زيادہ بارشوں کا لُطف لے سکتے ہيں اور وہی ہُوا معمُول سے ہٹ کر بارشيں ہُوئيں اور دو سال پہلے يہاں کی ايک سٹيٹ ميں برفباری بھی ہُوئ جو بجاۓخود ايک عجيب بات ہے ہاں آپ نے مُجھے شاہدہ باجی کہا مُجھے بہت اچھا لگا شُکريہ بھائ اللہ تعاليٰ خوش رکھے
دعاگو
شاہدہ اکرم
نامعلوم کس طرح میری تحریر کا شروع کا حصہ شائع نہ ہوا ۔ اسلئے دوبارہ لکھا ہے ۔ اس سے پہلے والا حذف کر دیجئے ۔ شکریہ ۔
اصل موضوع سے پہلے ایک تصحیح ۔ زَکَرِیَّا ، زے سے ہوتا ہے ذال سے نہیں ۔ شک ہو تو دیکھئے سورت مریم آیت 2
میں عالِم نہیں نہ علمِ دین کا اور نہ علمِ معاشیات کا ۔ میں پچھلی تین داہائیوں سے اس مسئلہ میں پھنسا ہوا ہوں ۔ ابھی تک اس سلسلہ میں روشنی تو نظر نہیں آئی البتہ کچھ اور معاملات واضح ہوئے ہیں ۔ اگر ایک گروہ میں بیس افراد ہوں اور ان میں سے اُنیس جھوٹ بول رہے ہوں تو ایک سچ بولنے والے کی بات کوئی نہیں مانتا ۔ دوسری مثال کہ ایک آدمی عام طور پر جھوٹ ہی بولتا ہو تو عین ممکن ہے کہ اس کے کئی جھوٹ سچ سمجھ لئے جائیں اور سچ کو جھوٹ سمجھ لیا جائے ۔ آج کا معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ اگر ایک نیک فرد کسی کے ساتھ بے لوث نیکی کرے تو اِسے بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ آپ شائد سمجھ رہے ہوں کہ میں موضوع سے بھٹک گیا ہوں ۔
حقیقت یہ ہے کہ بنکاری نظام ہے ہی سود کی پیداوار اسلئے بنکوں کے موجودہ نظام کو سود سے پاک کرنا ناممکن ہے ۔ یہ نظام ساہوکاروں نے بنایا اور اس وقت پوری دنیا کی معیشت ساہوکاروں کی مُٹھی میں ہے ۔ زمانہ قدیم میں یہودی ساہوکار ہوا کرتے تھے پھر ہندو لالے بھی ساہوکار بن گئے ۔ ساہوکار بہت کنجوس ہونے کے علاوہ بہت لالچی ۔ مکّار اورپتھر دل بھی ہوتے ہیں ۔ ضرورتمندوں کو جھانسہ دے کر ان کی مجبوریوں کو اپنے خزانہ میں اضافہ کا باعث بنانا ان کی مہارت ہوتی ہے ۔ اسلام میں کنجوس ہونے سے بھی شائد اسی لئے منع کیا گیا ہے کہ کنجوسی ساہوکارے کی طرف راغب کرتی ہے ۔
بنجر زمین میں کارآمد فصل نہیں اُگتی ۔ اس کیلئے پہلے بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانا پڑھتا ہے ۔ پھر بنجر دماغ میں اسلام کی کاشت اور وہ بھی ادھوری کیسے ہو سکتی ہے ؟ اسلام اس طرح نافذ نہیں ہو سکتا جس طرح جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں ظاہر کیا گیا ۔ یہ در اصل مطلب پرست خوشامدیوں کی اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش تھی ۔ اسلام کپڑے یا جلد کو تبدیل کرنے کا نام نہیں ہے ۔ اسلام روح اور سوچ کی تبدیلی کا نام ہے اور ایک مربوط نظام ہے جسے پورے کا پورا نافذ نہ کیا جائے تو فائدہ کی بجائے نقصان ہونے کا احتمال ہوتا ہے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ذہنوں یعنی سوچ میں تبدیلی لائی جائے ۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ اسلام ترقی کی راہ میں حائل ہے یا ترقی اسلام کی راہ میں حائل ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ انسانیت کو چھوڑ کر حریص اور خودغرض بن چکے ہیں اور اچھائی کا وہ صرف لبادہ پہننا چاہتے ہیں تا کہ اچھے نظر آئیں اندر سے اچھا بننے کا ان کا ارادہ نہیں ہوتا ۔
merey khial main aap is video ko zaroor daikhain. sab fraad samagh aa jaeiee gaaa
http://video.google.fr/videoplay?docid=-9050474362583451279
اسلام نے سود کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ کام جس پر نفع “یقینی“ ہو۔
Dard ashna, where have you taken this “Islamic” definition of interest from? Reference please.
جب لوگ اسلامی بنکاری کی بات کرتے ہیں تو مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور الجھن بھی ہوتی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ہم اسلامی جسم فروشی کریں گے یا ہمارا شراب کا خارخانہ اسلامی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ ارے بھیا مے خانے میں تو مے ہی ملے گی، زہد ڈھونڈنا ہے تو مسجد جائو۔ بینکنگ ایک کاروبار ہے، پیسہ لگانے والا اس شرط یا امید پر پیسہ لگاتا ہے کہ بڑھ کر ملے گا۔ اسلام میں بنک نامی ادارے کی کوئی گنجائش نہیں، ہاں کاروبار کے اور طریقے موجود ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم مغربی یا لادینی معاشروں کے ایجاد کردہ اداروں کو اسلامیانہ چاہتے ہیں جو ممکن ہی نہیں۔ جہاں تک کرنسی کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک بہت بڑا فریب ہے کہ کاغذ چھاپ کر اسکی ایک قیمت مقرر کر دی جائے۔ مزے کی بات کی امریکن ڈالر حکومت نہیں بلکہ کچھ پرائویٹ بنک چھاپتے ہیں اور حکومت کو فروخت کر دیتے ہیں۔ یہی حال سٹاک ٹریڈنگ کا ہے۔ ہمیں ایک مکمل نظام کی ضرورت ہے، یہ چھوٹے موٹے اسلامی بنک کھولنا کوئی حل نہیں۔ اب تو سٹی بنک بھی اسلامی بنکنگ کر رہا ہے، جی ہاں کیونکہ وہ مسلمانوں کے اربوں روپے کہیں اور کیسے جانے دے؟
فیصل میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں اور میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ اسلامی بینکنگ سوائے الفاظوں کے ہیر پھیر کے اصل میں کچھ نہیں۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں سرمائے کو محفوظ رکھنے اور مناسب طریقے سے استعمال کرنے کے لیے کیا کسی ادارے کی کوئی ہیت وضع کی گئی ہے؟ کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ موجودہ حالات میں آپ لاکھوں روپے گھر میں نہیں رکھ سکتے اور چھوٹی سے چھوٹی ٹرانزیکشن کے لیے بھی آپ کو بینک کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہے۔۔ اور آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی اس شیطانی چکر میں پھنس جاتا ہے۔
اگر صرف پیسہ محفوظ رکھنا مقصود ہے تو بنک میں رکھیے اور اس کی قیمت ادا کیجیے۔ ویسے تو اسلام میں پیسے کو حرکت میں رکھنے کیلئے زکواۃ جیسے ادارے ہیں۔
میری معلمہ نے اس حوالے سے کچھ گفتگو کی ہے میں انشاء اللہ جلد ہی اس پر لکھوں گا،فیحال ایک حدیث،
آپ (ص)نے فرمایا ایک زمانہ ایسابھی آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے،صحابہ(رض)نے پوچھا کیا سب کے سب؟فرمایا جو نہ کھائے گا اسے بھی غبار تو پہنچے گا ہی،یہ مسند احمد کی حدیث ہے اور اسے تفسیر ابن کثیر میں کوٹ کیا گیا ہے،
اس سے بچنے کی کوشش کے ساتھ جانے انجانے جو گناہ ہم سے ہو رہا ہے اس کے لیئے خوب صدقہ و خیرات نکالیئے اور استغفار کیجیئے،
مفتی اعظم پاکستان مولانامحمد شفیع عثمانی صاحب نے اس پر ایک پورا طریقہ کار لکھ کر پاکستان حکومت کو پیش کیا تھاکہ کس طرح پاکستان میں بلاسود بنکاری اور تجارت کو فروغ دیا جائے جو کسی سردخانے میں ڈال دیا گیااگر اس پر دوبارہ غور و فکر کیا جائے تو اور کچھ نہیں تو صرف اسلامی ممالک ہی اسے اپنے یہاں رائج کر سکتے ہیں،
ویسے ایسا ہو گا ضرور جلد یا بدیر کیونکہ آپ (ص)کی یہ حدیث کے تم صلیب توڑ دو گے اور انکے خلاف جہاد کروگے کو بھی تو پورا ہوناہے،
میں تبصروں میں دیر کر دیتا ہوں اور اس کی وجہ میری مصروفیت ہے،
مفتی اعظم پاکستان مولانامحمد شفیع عثمانی صاحب
Inko mufti e azam kis nay muqarar kia hai aur kia inka taaluq bhee pakistan kee mukhalfat kurnay walee jamaat say nahain? Saray chor uchukay ub pakistan aakay mufti e azam aur ulema e karam bun gai hain isleey pakistan main Islam kee yeah halat hai
مینے پہلے بھی لکھا تھا کہ آئینے میں ہمیشہ اپنا چہرہ ہی دکھائی دیتا ہے، جو خود چور اچکا ہو اسے سب ہی چور اچکے لگتے ہیں:)
آپ پاکستان میں قادیانیوں کا اسلام نافز کرنا چاہتے ہیں غالباً:)
اس پوسٹ کو پڑھ کے میں نے دارلعلوم دیوبند انڈیا کو میل کیا جہاں سے درج ذیل جواب آج موصول ہوا۔۔۔ مہربانی کرکے ملاحضہ فرمائیں۔
http://www.darulifta-deoband.org/urdu/viewfatwa_u.jsp?ID=463
عصیر صاحب
معاف کرنا اگر میںآپ کا نام اردو میںغلط لکھ گیا۔
آپ کے لنک سے جواب ھم یہاںکاپی کررہے تکہ لنک سے جواب غائب ہونے کے رسک سے بچ سکیں۔
(1) سود کی تعریف کیا ہے؟
(2) اور کیا موجودہ دور میں سود کے بغیر کاروبار ممکن ہے؟
(3) نیز اسلام آنے کے بعد کتنے عرصے تک بلا سودی نظام چلتا رہا؟
(4) اور سب سے پہلے کس اسلامی مملکت یا کس اسلامی حکمراں نے غیر سودی نظام ترک کیا اور کیوں؟
23 May, 2007 Answer: 463
(فتوى: 95/د=۹۳/د)
(1) سود کی تعریف ففہائے کرام یہ کرتے ہیں: کیلی یا وزنی چیز کے تبادلہ میں دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔
(2) ضرور ممکن ہے خواہ کچھ دشواری اور تنگی کے ساتھ بشرطیکہ مال و دولت کی حرص زائد اور تکاثر بے جا سے بچاجائے اور جو اقل قلیل جز سود کا پھر بھی باوجود احتیاط و احتراز کے کاروبار میں شامل ہوجائے اس سے توبہ و استغفار کرتا رہے۔ حدیث میں پیشین گوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقنا لوگوپر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ کوئی بھی بغیر سود کھائے نہ بچ سکے گا۔ اور اگر کھایا نہیں تو کم ازکم اس کا دھواں یا گرد تو پہنچ ہی جائے گا۔ (مشکوٰة)
حاصل یہ ہے کہ حرام کو حرام سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش کرنا فرض ہے اور مجبوری میں جو خبر شامل ہوجائے اس سے استغناء ضروری ہے۔ اور مجبوری کی حالت کو اللہ بہتر جانتا ہے واللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَo (عنکبوت: 45)
(3) اسلام سے قبل جاہلیت میں سودی لین دین کا رواج تھا۔ جب قرآن میں اس کی حرمت نازل ہوئی تو مسلمان پورے طور پر اس سے کنارہ کش ہوگئے اورایک طویل زمانہ تک اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومتیں اس سے محفوظ رہیں۔
(4) سودی نظام کو عالمگیر پیمانہ پر سسٹم بناکر پیش کرنا اور حکومتوں حتی کی افراد کا اس میں ملوث ہوجانا اللہ تعالیٰ کی مبغوض جماعت یہودیوں کی کرشمہ سازی ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اکَّالون للسحت فرمایا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
آپ اگر غور کریں تو آپ کو سوالوں کے معقول جواب نہیںدئے گئے۔ سود کی تعریف کے بعد دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ہماری بات کی تائید کردی ہے۔ تیسرے اور چوتھے سوال کا جواب تو بالکل گول کردیا گیا ہے۔
جی ہاں اپ نے میرا نام غلط لکھا،، A “ الف کیلیئے اتا ہے ع کیلئے I اتا ہے، اور عصیر عربی میں جوس کو کہتے ہیں جبکہ میں اسیر ہوں۔۔
اپ نے صحیح سمجھا ،،لیکن مفتی صاحب نے اختصار سے کام لیا ہے
Leave A Reply