ہمارے بلاگ پر کافی عرصے سے ایک سروے جاری رہا ہے۔ جس کی ترتیب اس طرح ہے۔
n
پاکستان میں فرانس جیسا انقلاب کب آئے گا
اس پول کے نتائج سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی اجتماعی طور پر اپنے روشن مستقبل سے مایوس ہیں۔ دوسرے روشن مستقبل کیلیے ابھی ہم لوگ اجتماعی کوششیں بھی نہیں کر رہے۔
8 users commented in " کاہلی اور مایوسی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبزرگو!
آپ پاکستان جیسے ملک میں فرانس جیسا انقلاب کیوں لانا چاہتے ہیں؟
اب تک تو “اسلامی انقلاب“ کی نوید سنتے کان پک گئے ہیں ، اور آپ ہیں کہ فرانسیسی طرز کے جمہوری و سیکولر انقلاب پر لگا رہے ہیں۔
آپ کو سوال پوچھنا چاہیے کہ : پاکستان میں اسلامی انقلاب کب آئے گا؟
امید قارئین آپ کو مایوس نہیںکریںگے۔
آپ کا سوال غلط ہے
آپ کو سوال پوچھنا چاہیے کہ : پاکستان میں اسلامی انقلاب کب آئے گا؟
یا خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کب تک قائم ہو سکتی ہے؟
توامید ہے قارئین آپ کو مایوس نہیںکریںگے۔
میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرتے ہوئے آپ سے اتفاق کرتا ہوں
اس پول کے نتائج سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی اجتماعی طور پر اپنے روشن مستقبل سے مایوس ہیں۔ دوسرے روشن مستقبل کیلیے ابھی ہم لوگ اجتماعی کوششیں بھی نہیں کر رہے۔
آپ اگر یہ سوال بھی پوچھیں کہ : پاکستان میں اسلامی انقلاب کب آئے گا؟
یا خلافت علیٰ منھاج النبوۃ کب تک قائم ہو سکتی ہے؟
توآج11۔05۔2011 تک غالب یہی ہے کہ قارئین ،جو کہ خود مایوس ہیں آپ کوبھی مایوس ہی کریںگے۔
اسلامی انقلاب تو امن اور سلامتی کا انقلاب ہے!
آپ اپنے گھر سے امن اور سلامتی شروع کریں،اسلامی انقلاب آنا شروع ہوجائے گا!
اچھا تو پھر سب سو جائیں ؟
اس پول کے نتائج سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی
اجتماعی طور
پر اپنے روشن مستقبل سے مایوس ہیں۔ دوسرے روشن مستقبل کیلیے ابھی ہم لوگ
اجتماعی کوششیں
بھی نہیں کر رہے۔
توآج12۔05۔2011 تک غالب امکان یہی تھا کہ قارئین ،جو کہ خود مایوس ہیں ہمیں بھی مایوس ہی کریںگے۔
موجودہ پول یا سروے میں بھی یہی لگ رہا ہے ۔ سوال تھا
کیا اسامہ بن لادن ایبٹ آباد آپریشن میں واقعی مارے گئے؟
1 نہیں 8 of all votes 53%
2معلوم نہیں 4 25 ٪of all votes
3 ہاں of all votes 20٪ : 3
یعنی 25 فی صد لوگوں کو کچھ بھی پتا نہیں۔
اور 53 فی صد لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ وہاں مرا نہیں۔اس کے دو 2 مطلب ہوسکتے ہیں کہ
وہ وہاں موجود ہی نہیں تھا
دوسراوہ وہاںموجود تھا اور امریکی اسے زندہ اٹھالے گئے
20 فی صد لوگ یقین کے ساتھ کہ رہے ہیں کہ وہ وہاں موجود تھا اور امریکیوں نے اسے قتل کیا اور اسے اٹھا کر لے گئے۔
شائد یہاں آپکو اپنے سوالات کا جواب مل جائے!
http://www.bbc.co.uk/urdu/blogs/2011/05/110513_student_blog_aliya_qau_zs.shtml
عالیہ امیر علی
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد
کچھ ہی عرصہ پہلے قائدِاعظم یونیورسٹی کی طرف سے قوم کو ایک بہت بڑی خوشخبری سنائی گئی ۔اعلان کیا گیا کہ قائدِاعظم یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعات میں شمار ہو چکی ہے اور مکینیکل، ایروناٹیکل اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں بین الاقوامی سطح پر انہترویں پوزیشن پر ہے اور پہلی بار ایک پاکستانی یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔
ہمارے وائس چانسلر صاحب نے بڑے فخر سے میڈیا پر بیان دیا کہ ہم آج ایم آئی ٹی اور ہارورڈ جیسے جامعات کی فہرست میں شامل ہیں کیونکہ ہم نے اپنے ادارے میں پروفیشنلزم، جدیدعلوم اور معیاری تحقیق کو فروغ دیا ہے۔
ذاتی طور پر مجھے یہ خبر سن کر بڑی حیرانی ہوئی۔ یقیناً میں انجینئرنگ کی طالبہ نہیں ہوں لیکن مجھے اپنے ادارے کے مجموعی معیار کا اندازہ تو پھر بھی ہے۔اس ریٹنگ پر تعجب کرنے والی میں اکیلی نہیں تھی۔ بلکہ یہ خبر سننے کے بعد جب بہت سے لوگوں نے اس ریٹنگ کی بنیاد اور طریقہ کارپر سوال کرنا شروع کیے تو پتہ چلا کہ جس شعبہ میں برتری کی بنیاد پر ہمیں دنیا کی انہترویں بہترین یونیورسٹی قرار دیا گیا اس ڈیپارٹمنٹ کاہماری یونیورسٹی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ہاں،ہمارے الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ میں ان شعبوں میں کچھ کورس کرائے جاتے ہیں لیکن یہ ہرگز دنیا میں کیا پاکستان میں انجینئرنگ کے لیے بہترین ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے۔
کیا ہم واقعی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ تھوک کے حساب سے بے فائدہ ’ریسرچ پیپر‘چھاپنے اور دھڑا دھڑ غیر معیاری پی ایچ ڈی پیدا کرنے سے ہم حقیقی معنوں میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے کے لائق بن جائیں گے؟اگر ایسا ہوتا تو کسی اور ریٹنگ لسٹ میں بھی ہمارا ذکر تو ہوتا۔اب تو جس ادارے نے ریٹنگ کی تھی اس نے اپنی فہرست میں سے ہمارا نام ہٹا دیا ہے۔ عزت کے بجائے شرمندگی کا باعث بنا یہ پورا تماشا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے وائس چانسلر کو کیا اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے ادارے میں ایروناٹیکل ڈیپارٹنمنٹ ہے ہی نہیں؟ کیا ہم واقعی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ تھوک کے حساب سے بے فائدہ ’ریسرچ پیپر‘چھاپنے اور دھڑا دھڑ غیر معیاری پی ایچ ڈی پیدا کرنے سے ہم حقیقی معنوں میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے کے لائق بن جائیں گے؟
کیا تعلیم کے معیار کو ناپنے کا پیمانہ مقدار یا تعداد پر مبنی ہونا چاہیے؟ ہمارے معاشرہ کے ہر شعبہ میں ہر سطح پر یہ بیماری پائی جاتی ہے: ہم دکھاوے کے لیے ہی کرتے ہیں جو کرتے ہیں۔ اندر سے کتنے ہی کھوکھلے اور کمزور کیوں نہ ہوں اوروں کے سامنے پھنے خان بنیں گے اور اندر سے ہوں گے کھوکھلے۔ شترمرغ کی طرح اپنے سر ریت میں دباکر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ہم لوگ۔
ہر شخص بس اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے بغیر اس بات کو تسلیم کیے ہوئے کہ ہم ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے سواری ہیں۔ اگر اسی طرح منتشر رہے تو سارے ڈوبیں گے، بہتر یہی ہے کہ سمندر میں چھلانگ مارنے پر مجبور ہونے سے پہلے مل کر اس کشتی کی مرمت کر لیں۔لیکن اگر ہم تھوڑی سی ہمت کر کے اپنے سر ریت سے باہر نکالیں تو ہمیں جو حقائق نظر آئیں گے وہ یقیناً شروع میں ہمارے لیے قبول کرنا مشکل ہوں گے۔ مثلا یہ کہ یا سرکار کے پٹھوِ یا سرمایہ داری نظام کے پرز ے پیدا کرنے کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ کہ 63 سالوں سے ہم جھوٹ پر پلتے بڑھتے رہے ہیں، ہم ایک منتشر اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں، ہمیں اپنی اصل تاریخ کا علم نہیں، ہمیں اپنے ملک میں ہونے والے روزمرہ کے گھناؤنے حقائق کا علم نہیں۔
ہمارے اندر تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتیں نہیں جن کے بغیر ہم اک صحت مند معاشرہ بن نہیں سکتے۔ ہمارے اندر اپنے ملک کے لیے اپنائیت نہیں، ہمارے اندر تبدیلی لانے کا، قربانی دینے کا، معاشرے کی خوشحالی کا خواب دیکھنے کا جذبہ نہیں۔ ہمارے اندر منافقت، رشوت خوری اور سفارش کے رویے دن بدن پروان چڑھتے جا رہے ہیں۔ہم ذاتی مفاد اور دولت کمانے کے علاوہ کسی مقصد کے لیے کام کرنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔
ہر شخص بس اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے بغیر اس بات کو تسلیم کیے ہوئے کہ ہم ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے سواری ہیں۔ اگر اسی طرح منتشر رہے تو سارے ڈوبیں گے، بہتر یہی ہے کہ سمندر میں چھلانگ مارنے پر مجبور ہونے سے پہلے مل کر اس کشتی کی مرمت کر لیں۔
یعنی سزا پوری قوم کو مل سکتی ہے۔
1 انڈیا کا ظلم
2 چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم جو انڈیا کے دست نگر ہوں
3 اس نام کے ملک کا صفحہء ہستی سے مٹ جانا
Leave A Reply