بغیر لیڈر کے عوامی احتجاج بے مہار اونٹ کی طرح ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ نقصان دہ ہی ہوتا ہے۔ آج کل عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر احتجاج کر رہے ہیں مگر اس احتجاج کو کوئی بھی سیاسی جماعت ہائی جیک نہیں کر رہی۔ اس سے پہلے ایوب دور میں چینی مہنگی ہوئی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ اس تحریک کو بھٹو نے ہائی جیک کر لیا اور آخرکار ایوب کو گھر بھیج کر چھوڑا۔ بھٹو نے انتخابات میں بدعنوانی کی، قومی اتحاد نے اس تحریک کو اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک کی صورت میں ہائی جیک کر لیا مگر اس کا فائدہ ایک فوجی ڈکٹیٹر نے اٹھایا۔ اسی طرح چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک چلی جسے وکلا اور نواز شریف نے ہائی جیک کر لیا اور مشرف کو حکومت چھوڑنی پڑی۔
مگر آجکل لگتا ہے حکومت سے باہر جماعتوں کو حکومت کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ تبھی تو مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، مذہبی جماعتیں سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی ہیں مگر کوئی بھی میدان میں اترنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ یہ بہترین موقع ہے عمران خان اور الطاف حسین کیلیے جو جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف عام آدمی کی حکومت کے حق میں ہیں اور اگر وہ چاہیں تو لوڈشیڈنگ کی تحریک کو ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ یہی کچھ جماعت اسلامی جیسی متحرک جماعت بھی کر سکتی ہے مگر وہ بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ شیخ رشید اگر چاہیں تو وہ اس احتجاج کو ہائی جیک کر سکتے ہیں مگر وہ بھی ٹی وی چینلوں پر مباحثوں تک محدود ہیں۔
ہے کوئی ماں کا لال جو مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور ڈینگی کی ستائی عوام کو لیڈرشپ مہیا کرے اور عوام کا بھی بھلا کرے اور اپنا بھی بھلا کرے۔ اس وقت عوام مسائل میں گھری ہوئی ہے اسے صرف اشارے کی ضرورت ہے پھر دیکھیے گا یہ لوگ اسلام آباد پہنچ کر دم لیں گے۔ اس وقت جو بھی سیاستدان حکومت بنا کر عوامی مسائل کا مداوا کرنا چاہتا ہے تو وہ اینٹی امریکہ عوامی جذبات، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور دہشگ گردی جیسے بحرانوں کا فائد اٹھائے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال دے۔
2 users commented in " احتجاج بغیر لیڈر کے بیکار "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackتحریک کو ہائی جیک کرکے بجلی پانی روٹی کہاں سے دیں گے۔
سارے سیانے ہیں
اسی طرح چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک چلی جسے وکلا اور نواز شریف نے ہائی جیک کر لیا اور مشرف کو حکومت چھوڑنی پڑی۔
کیا واقعی؟؟؟؟؟؟
لگتا تو نہیں ہے لیکن شائد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🙂
مگر بہت سے لوگ تو کہتے ہیں کہ مشرف اب بھی ملک کا صدر ہے؟؟؟؟؟
🙂
Leave A Reply