سنتے آۓ ہيں کہ چوہدري ظہور الہي جو چوہدري برادران کے سياست ميں آنے کا سبب بنے پاکستاني کي آزادي کے وقت پوليس ميں سپاہي تھے۔ انہوں نے ايک سکھ خاندان کو بارڈر پار پہنچانے کي حامي بھري مگر راستے ميں خود ہي ان کو لوٹ ليا اور ساري دولت چھين کر گھر لے آۓ۔ اس دولت سے پھر انہوں نے کاروبار شروع کيا اور اميروں ميں شامل ہو گۓ۔ ظہور الہي کو ذوالفقار علي بھٹو نے کافي تنگ کۓ رکھا۔ ايک دفعہ تو ان پر بھينس چوري کا مقدمہ بھي بنا ديا۔ اس وقت چوہدري ظہور الہي چوٹي کے اپوزيشن رہنما تھے۔ اسي دور ميں ان کو قتل کرا ديا گيا۔
ان کے بعد ان کے خاندان کي سربراہي چوہدري شجاعت کو سونپي گئ۔ چوہدري شجاعت اور ان کے کزن پرويز الہي پہلے جنرل ضيا کے ساتھ مل کر وزارت کے مزے لوٹتے رہے پھر جب نواز شريف کي حکومت آئي تو ان کے ساتھ مل گۓ۔ نواز شريف کے دوسرے دور ميں ان کے نواز شريف خاندان سے اختلافات اندرون خانہ ابھرنے لگے کيونکہ نواز شريف نے پرويز الہي کو پنجاب کا وزيراعلي بنانے کي بجاۓ اپنے بھائي شہباز شريف کو بنا ديا۔ چوہدري برادران نے مصلحت سے کام ليا اور نواز شريف سے بناۓ رکھي ۔ مگر جب نواز شريف نے پر پھيلانے شروع کۓ اور ہر مخالفت کے محاذ کھول لۓ تو چوہدري برادران چپ چاپ تماشا ديکھتے رہے۔ جب نواز شريف نے مشرّف کو ہٹانا چاہا اور وہ اس کوشش ميں حکومت سے ہاتھ دھو بيٹھے تو چوہدريوں کو بدلہ لينے کا موقع مل گيا۔ چوہدريوں نے نوازشريف کو تنہا چھوڑا اور سرکاري مسلم ليگ ميں شامل ہو کر مشرّف کے ساتھ آملے۔ تب سے اب تک چوہدري برادران ڈکٹيٹر کے ساۓ تلے حکومت کے مزے لوٹ رہے ہيں اور دونوں ہاتھوں سے دولت سميٹ رہے ہيں۔
جہاں تک جمہوري ہونے کا تعلق ہے تو چوہدري برادران اکثر عام چالاک سياستدانوں کي طرح ہميشہ حکومتي پارٹي کے ساتھ رہے ہيں۔ اس دوران انہوں نے ايک اور عقلمندي کي کہ اپنے خاندان کي لڑکيوں اور لڑکوں کے رشتے بناں ذات برادري کي تميز کے طاقتور خاندانوں کے گھروں ميں کر لۓ۔ اب کہيں ان کے داماد کا باپ جنرل ہے اور کہيں ان کي بيٹي کا سسر صنعتکار ہے۔ پاکستان ميں شائد ہي کوئي ايسا امير خاندان ہو گا جس سے انہوں نے رشتہ نہ جوڑا ہو۔
مگر اب ان کے لۓ لمحہ فکريہ شروع ہو رہا ہے کيونکہ اب يہ اپنے عروج پر ہيں اور اس کے بعد حالات بگڑ بھي سکتے ہيں۔ اور جب حالات بگڑنے لگيں تو پھر سارے رشتے ناطے کمزور پڑ جاتے ہيں اور اس وقت سب منہ پھير ليتے ہيں۔ اب سابقہ تجربے کو مد نظر رکھتے ہوۓ چوہدري برادران کے لۓ اچھا ہو گا کہ وہ عزت سے سياست سے ريٹائر ہو جائيں۔ مگر جب آدمي عروج پر ہوتا ہے تو وہ زوال کے بارے ميں سوچنا ہي چھوڑ ديتا ہے تاآنکہ وہ اوندھے منہ گر جاتا ہے اور لوگ اس کو روندتے ہوۓ آگے بڑھ جاتے ہيں۔
ہميں يقين ہے کہ چوہدري برادران يہي سوچ رہے ہوں گے کہ جنرل مشرّف کا سورج کبھي غروب نہي ہو گا اور اگر غروب ہوا بھي تو وہ دوسرے جنرل جو ان کا رشتہ دار ہو گا سے جا مليں گے۔ مگر ياد رکھنے کي بات يہ ہے کہ کل کي کسي کو خبر نہيں ہے۔ آدمي مستقبل کے بڑے بڑے منصوبے بنا کر رکھتا ہے مگر کبھي کبھي سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہيں۔
صرف بچنے کي ايک ہي راہ بچتي ہے اور وہ ہےلوگوں کي بےلوث خدمت۔ اگر لوگوں کے لۓ ہم اچھے کام کر جائیں تو پھر ہميشہ کيلۓ لوگوں کے دلوں ميں بسے رہيں گے وگرنہ گزرے ہوۓ بادشاہوں اور حاکموں کي طرح فراموش کر دۓ جائيں گے۔