آج جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر جدہ اور دبئی کے مسافروں کا سامان گم ہونے کی خبر ایکسپریس اخبار میں پڑھی تو ہمارے دماغ میں ایئر پورٹوں پر سامان چوری ہونے کی ساری کہانی تازہ ہو گئی۔آپ کو اگر اتفاق ہوا ہو ایئر پورٹ پر رسیوں میں جکڑے اٹیچی کیس دیکھنے کا تو سمجھ جائیے کہ یہ فلائٹ مشرق وسطی سے آئی ہے۔ 1970 کی دھائی میں جب لوگ مشرق وسطی روزی کی تلاش میں نکلے اور چھٹیوں پر سامان سے بھرے اٹیچی کیس اپنے ساتھ لانے لگے تو ایئرپورٹ عملے کی موج ہو گئی۔ انہوں نے بیرون ممالک سے آئے مسافروں کے اٹیچی کیسوں سے سامان چوری کرنا شروع کر دیا۔ یہ چوری جہاز سے سامان اتارنے سے لیکر کر حال تک پہنچانے کے دوران ہوتی تھی۔ جن کے سوٹ کیس سخت پلاسٹک کے بنے ہوتے تھے ان کے تالے ٹوٹے ہوتے اور جن کے کپڑے کے بنے ہوتے تھے وہ پھٹے پائے جاتے۔ یہی وجہ ہے مسافروں نے اپنے اٹیچی کیسوں کو رسیوں میں جکڑنا شروع کر دیا مگر چوری کا سلسلہ پھر بھی نہ رکا۔
لیکن جب ٹیکنالوجی تھوڑی ایڈوانس ہوئی اور ایئرپورٹس پر نظم و ضبط بہتر ہوا تو یہ چوریاں تقریبا ختم ہو گئیں۔
مگر چوری کا ایک انداز اب بھی ایئرپورٹ کے عملے نے اپنایا ہوا ہے۔ جب بھی مسافروں کا سامان کسی اور لوکل ایئرپورٹ پر غلطی سے اتار لیا جاتا ہے تو پھر ایئرپورٹ کا عملہ اس میں سے قیمتی اشیا چوری کر لیتا ہے۔ سات آٹھ سال پہلے جب ہم لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو معلوم ہوا ہمارا سامان غلطی سے اتارا ہی نہیں گیا اور کراچی چلا گیا ہے۔ دو دن بعد سامان گھر لانے پر پتہ چلا ایئرپورٹ کے عملے نے کافی ساری قیمتی اشیا چورہ کر لی ہیں۔ ادھر ادھر کافی دہائی مچانے پر بھی نہ اشیا ملیں اور نہ پی آئی اے نے نقصان کی تلافی کی۔ وگرنہ پورپی ممالک میں اگر آپ کا سامان گم ہو جائے تو ایئرلائنز والے آپ کو معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ایئرپورٹ کے عملے نے جان بوجھ کر سامان کراچی ایئرپورٹ پر روک لیا ہو گا تا کہ وہ سامان چوری کر کے عیدالاضحی کی خوشیاں دوبالا کر سکیں۔