کل ایک شادی کی تقریب میں عبدالعزیز کے برقعہ پہن کر فرار ہونے پر گول میز کانفرنس میں تمام احباب نے کھل کر اظہار خیال کیا۔ یہ کوئی سیاسی گول میز کانفرنس نہیں تھی بلکہ شادی کی تقریب میں گول میزیں لگائی گئیں تھیں اور ہم لوگ ایک گول میز کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔
روشن خیالوں نے تو جی بھر کر مولانا کے برقعے میں فرار کی آڑ میں اسلام کا خوب مذاق اڑایا اور خوب فقرے بازی کی۔ ہمارے ملک میں اسلام کو بدنام کرنے اور لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کیلیے “ملا” کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ اس “ملا” کی آڑ میں اسلام کے بنیادی ارکان پر جی کھول کر تنقید کی جاتی ہے اور روشن خیالی کی آڑ میں معاشرے کو مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوشش کی جارہی ہے۔ اس کامیابی کا اندازہ آپ ہمارے جاری سروے کے رزلٹ سے لگا سکتے ہیں جس میں ابھی تک 37 فیصد سے زیادہ لوگ پاکستان میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے کلچر کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔
اسی طرح اسلامی ذہن رکھنے والوں کو بھی مولانا پر بہت زیادہ غصہ آیا اورانہوں نے مولانا کی بزدلی پر خوب لعن طعن کی۔ ایک گاؤں کے چوہدری نے تو یہ شعر سنا کر جہاں محفل زعفران بنا دی وہیں سنجیدہ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مولانا کی اس سبکی کے بعد پتہ نہیں اب روشن خیال حکومت اور میڈیا کتنے دن اس واقعے کی آڑ میں اسلام کے پرخچے اڑاتے رہیں گے۔ گاؤں کے چوہدری نے ارشاد فرمایا،
بنے بنے بابا جاندا، مونڈھے اودھے تے کہئی
چوہدری جی، جے اے کم نئیں سی کرنا، تے انگل کاہنوں لئی
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ غازی برادران کو اسی طرح ایجینسی اور اسلام مخالف گروپوں نے استعمال کیا جس طرح صدام حسین کو اتحادیوں نے۔ جب مقصد پورا ہوگیا تو انہیں دوسروں کیلیے عبرت بنا دیا گیا۔ جس طرح صدام کو غار سے برآمد کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا اسی طرح مولانا کو برقعے میں ٹی وی پر پیش کرکے اسلامی شعار کا مذاق اڑایا گیا۔ ہم نہیں جانتے کہ مولانا کو پہلے برقعہ کے پردے میں دکھا کر، پھر برقعہ اٹھا کر ان کا چہرہ ٹی سکرین پر دکھا کرعوام کو کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئ سوائے اس کے کہ اسلام سے نوجوان نسل کو متنفر کیا جائے۔
اسلام پسندوں کا خیال تھا کہ عبدالعزیز نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے تنہا چھوڑ کر ایک بزدل کمانڈر کا کردار اسی طرح ادا کیا جس طرح ہماری فوج کے کمانڈر جنرل نیازی نے مشرقی پاکستن میں ہندو کے سامنے ہتھیار پھینک کر کیا تھا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ جس طرح جنرل نیازی کو ذلت پر موت کو ترجیح دینی چاہیے تھی اسی طرح مولانا کو بھی گرفتار ہونے سے پہلے مر جانا چاہیے تھا۔ لیکن ہم نے سب لوگوں کی توجہ جب زندگی سے پیار کی طرف دلائی تو سب لوگ خاموش ہوگئے۔ ہم نے پوچھا کہ ہم میں سے کتنے لوگ زندگی اور موت کی صورت میں موت کو زندگی پر ترجیح دیں گے تو سب لوگ خاموش ہوگئے۔ ان واقعات سے تو یہی لگتا ہے کہ انسان کو زندگی بہت پیاری ہوتی ہے اور وہ اسکیلے ساری زندگی سلاخوں کے پیچھے گلنا سڑنا یا پولیس سے چھترول بھی قبول کرلیتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو عبرت کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اب دنیا میں صرف جاپان میں پائے جاتے ہیں جو اپنے چھوٹے سے مالی سکینڈل پر بھی خودکشی کرلیتے ہیں۔
اس موقعہ پر ہم نے ایک واقعہ بھی سنایا۔ روس کیخلاف افغانستان ميں مجاہدین کی جنگ میں ہماری فوج نے بھی حصہ لیا۔ جنگ کے بعد ایک مجاہد سے ہماری ملاقات ہوئی تو اس نے اپنی گرفتاری کا واقعہ سنایا۔ کہنے لگا کہ وہ اور ایک فوجی کپتان روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ ایک دو روز روسیوں نے ان کی خوب ٹھکائی کی اور کپتان کو مار مار کر لہو لہان کردیا۔ اس دن کپتان نے مجاہد سے کہا کہ اب وہ اس سے زیادہ مار برداشت نہیں کر پائے گا اور اسے خدشہ ہے کہ وہ فوج کے راز نہ اگل دے، اس نے اپنے ناخن میں چھپایا ہوا سایانائٹ کا زہر کھایا اور موت کو گلے لگا لیا۔ اس طرح کا فیصلہ کرنے کیلیے بہت بڑا جگر چاہئے وگرنہ آدمی اسی خوش فہمی میں گرفتاری کے بعد ظلم سہتا رہتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ رہا ہوجائے گا اور اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ دشمن راز اگلوانے کے بعد اسے ناکارہ سمجھ کرختم کردے گا۔
اکثریت کی یہی رائے تھی کہ لال مسجد کے واقعہ نے اسلام کے کاز کو نقصان پہنچایا ہے اور اس طرح روشن خیالوں اور میڈیا کو اسلامی افکار پر مزید کیچڑ اچھالنے کا موقع مل گیا۔
اس موضوع پر ہماری سابقہ تحاریر جامعہ حفصہ کی طالبات اور انتظامیہ کی ٹکر، جامعہ حفصہ کے بارے میں حکومت کا کمزور موقف، لال مسجد کو مزید لال ہونے سے اب بھی بچایا جاسکتا ہے اور جائز مقاصد ناجائز طریقے سے حاصل کرنا گھاٹے کا سودا ہے
12 users commented in " عبدالعزیزبرقعہ پوش "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackانہیں تو بشارت ہوئی تھی کہ مسجد کا صحن ان کے لہو سے سرخ ہوگا تو انقلاب آئیگا۔ اس طرح ہزیمت اٹھا کر بھی حکومت سے مذاکرات کو بے قرار ہیں۔
افسوس ہوتا ہے دین اسلام کو لوگ اس طرح دنیا کی نظر میں مضحکہ خیز بنا کر دین کی کیا خدمت کر رہے ہیں،سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کےلوگ جو پہلے ہی دین سے کوسوں دور ہیں کہیں اور دور نہ ہوجائیں،
Main pehlay bhee arz kar chuka hoon kay nai nasal ko Islam say begana karnay walay yahee Mullah hain. Maghrab ko ilzam denay waloon kay leaay arz hai keh kahan to wo kirdaar kay sahaba khud hee badkarion ko chore chore kay musalmaan ho rahau hain aur aur kahan yeah Mullah ka kirdaar kay achaa bhala musalman bhee azmaesh main par jaeey. Islam kee izat bahal karanee hai to in Mullaoon say jaan churain aur bar bar in Mullaoon say bewakoof banna band karain.
دیکھیں پہلی چیز تو یہ کہ لال مسجد اور اس سے متعلقہ سارا ڈرامہ نہ کوئی تحریک تھا اور نہ اس سے کسی صورت کوئی بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا تھا۔۔ یہ کھیل ہی تھا اور کھیل ہی کی طرح اختتام پذیر ہوگیا یا ہو جائے گا جس کے آخر میں 12 مئی کی طرح کچھ لاشیں ہوں گی ۔۔ جس میں مرنے والا بھی شہید اور مارنے والا بھی غازی۔ جہاں تک “ملا“ کی اصطلاح کی بات ہے تو یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں بلکہ اقبال کے اشعار اور شاید کچھ نثر میں بھی یہ اصطلاح پائی جاتی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ مذہب کو مذہبی عناصر نے جتنا نقصان پہنچایا اتنا لادینی قوتیں بھی کبھی نہ پہنچا سکیں۔ آپ ہمارے یہاں کی ساری (سو کالڈ) اسلامی تحریکوں کا جائزہ لے لیں وہ کبھی بھی عورت کے نقاب اور مرد کی شلوار سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ عصری تقاضوں سے بے بہرہ شدت پسند کسی صورت بھی اسلامی تو چھوڑ کسی بھی قسم کا انقلاب نہیں لاسکتے اور اس قسم کی ہر کوشش کے نتائج کی صورت میں انارکی اور مذہب سے مزید بیگانگی ہی معاشرے کا مقدر بنے گی اور اسکا الزام بجا طور پر مذہبی قیادت کو دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ تھوڑے فائدے کے لیے مذہب یا دین کا سودا کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ لال مسجد کے پورے ایپیسوڈ کے دوران مذہبی قیادت تو چھوڑ سوائے ایم کیو ایم کے کہیں سے بھی کوئی واضح آواز بلند نہ ہوئی گو کہ ایم کیو ایم کا مقصد بھی بنیادی طور پر دوسرا ہی تھا۔۔ اس صورت حال میں آج لال مسجد تو کالا پیلا مدرسہ اور پرسوں کالی درگاہ کے امکانات بدستور ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
ایم کیو ایم کی آواز بلند ہوئی؟ راشد کامران اس کی وضاحت کریں گے؟ ایم کیو ایم نے تو اس معاملے پر کچھ نہیں کہا۔
میرا اشارہ اس ریلی کی طرف تھا جو ایم کیو ایم کی طرف سے نکالی گئی اور لال مسجد کے پورے قضیے میں صرف وہی ایک بلند آواز سنائی دی۔ جیسا کے میں نے کہا کے پس پردہ مقصد شاید کچھ اور ہی تھا بہر حال مخالفت میں صرف ایم کیو ایم کی ہی ریلی نکلی تھی اور کسی طرف سے اتنی بلند آواز “لال اسلام“ کے خلاف بلند نہیں ہوئی۔
آج کی دنیا پروپیگینڈا کی ہے ۔ جس کے قبضہ میں ذرائع ابلاغ ہوں وہ سچا باقی سب جھوٹے ۔ مولوی عبدالعزیز اور اس کا بھائی مولوی عبدالرشید تین درجن طلباء ۔ طالبات اور شہریوں کے رینجرز کے ہاتھوں مارے جانے کے اتنے ہی مجرم ہیں جتنا چیف جسٹس صاحب 12 مئی کو کراچی میں تین درجن سے زائد لوگوں کے مارے جانے کے ذمہ دار ہیں ۔
ہمارے ملک میں تعلیم کے فقدان اور مال کی محبت کی وجہ سے ہر برائی کا ذمہ دار دین اسلام کو قرار دینا اعلٰی دماغی سمجھی جاتی ہے ۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے اور ایسا کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں ۔ میں انشاء اللہ جلد اس رویّے پر لکھوں گا
بھائی اجمل اللہ کا نام لے کر ، اسلام کے نام پر اور رسول کے کلمہ کا جھنڈا اٹھانے والے جب انسانوں کو کشت وخون میں نہلاتے ہیں تو اس بارے میں آدمی کب تک خاموش رہے گا؟ کوئی بھی دین اسلام کو برا بھلا نہیں کہہ رہا۔۔ ہر انسان دین کے ٹھیکیداروں کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔۔
مندرجہ بالا تمام تبصرہ نگار مجھ سے عمر میں بڑے معلوم ھوتے ھیں لہذا سب بڑوں کی عزت کرنا لازمی ھے۔۔اور ان پر اپنے سے چھو ٹے بچوں کی عزت کرنا بھی لازم و ملزوم ھے۔۔
ایک مشورہ دینے کی جسارت کر رھا ھوں کہ نواز شریف اور ایم ایم اے کے لوگ کراچی، 90 اور ایم کیو ایم کے طواف کرنا چھوڑ دیں۔۔۔بیت اللہ کے طواف کریں۔۔۔ثواب عطا ھوگا۔۔۔۔۔ھر بات گھوم گھام کر ایم کیو ایم پر اور کراچی کی طرف کیوں آجاتی ھے۔۔
کراچی کے لوگوں نے سب سے پہلے لال والوں کی لال لال کر دینے والی حرکتوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور جب لال والوں کے خلاف آپریشن کی تیاری شروع کرنے کیلئے عزت مآب جناب صدر اسلامی جمھوریہ پاکستان محترم جرنل پرویز مشرف سید نے اجازت عطا کی تو قائد تحریک حق پرست بانی ایم کیو ایم و اے پی ایم ایس او عزت مآب جناب الطاف حسین نے صدر مملکت کو سمجھایا اور انہیں کہا کہ آپ معصوم و مظلوم طلبہ و طالبات کی قیمتی جانوں کو مدنظر رکھتے ھوئے لال والوں کو کچھ اور مہلت دیں۔۔ تا کہ وہ سدھر جائیں۔۔۔لیکن لال والے سدھرے نہیں بلکہ اس وقت کا انہوں نے فائدہ اٹھایا برقعہ پہننے کیلئے۔۔۔اور برقعہ پہن کر باھر آتے ھوئے رنگے ھاتھوں گرفتار ھوئے۔۔۔۔اور نیازی کے نقش قدم پر چل کر جاویدہ ھو گئے تا قیامت کیلئے۔۔۔لوگ انہیں اب لال نیازی جونیئر کے نام سے یاد رکھیں گے۔۔۔
اجمل ایم کیو ایم کے لوگ بارہ مئی کے واقعے کے بعد کہہ رہے تھے کہ آج کل کی دنیا پروپگینڈے کی ہے اور انہوں نے جو نہیں کیا اس کا پروپگینڈا کیا جارہا ہے۔ لیکن ان کی بات جھوٹ تھی۔ آج غازی براداران کے ہمدرد یہی کہہ رہے ہیں۔ مگر وہ سچے ہیں
کیا یہ منافقت نہیں؟
<p>جب سے لال مسجد کا بحران شروع ہوا ہے اور جس طرح حکومت نے اسے ہینڈل کیا ہے کچھ لوگوں کو حکومت کی نیت پر شک ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ یہ سب کیا دھرا حکومت کا اپنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیںسکتا کہ دو مولوی ساری حکومت کو کئ ماہ آگے لگائے رکھیں اور حکومت اف تک نہ کرے۔ حکومت نے لال مسجد کے خلاف ایکشن کا جو وقت چنا ہے اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ بقول ان لوگوں کے حکومت نے لال مسجد کی سرخی میں اے پی سی اور سیلاب زدہ لوگوں کی مدد میں ناکامی کو چھپا دیا ہے۔ اب تو ہمیںبھی کچھ کچھ حکومت کی نیت پر شک ہونے لگا ہے۔ لیکن اس کیساتھ ساتھ حکومت اگر اس آپریشن کو لٹکا کر سمجھتی ہے کہ وہ جانوں کا ضیاع محدود رکھنا چاہتی ہے تو اس کی بات میں بھی وزن ہے۔</p>
مولانا عزیز نے کل واہ فیکٹری کے ایک جلسے میں بتایا کہ چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین نے انہیں برقع پہن کر باہر آنے کو کہا تھا اور انکار کی صورت میں کہا تھا کہ دونوں کو مشرف خفیہ ایجنسیوں سے مروا دے گا۔
Leave A Reply