امریکی سفارتکار سے ملنے کے بعد الطاف حسین کے مارشل لا کے بیان نے سیلاب کے بحران کو دھندلا دیا ہے۔ ان کے انٹرویو میں تضاد ہی تضاد پایا جاتا ہے۔

ایک طرف وہ کہتے ہیں انہوں نے مارشل لا کی بات نہیں کی، کرپٹ سیاستدانوں نے میری تقریر کو غلط رنگ دیا مگر دوسری طرف کہتے ہیں پوری فوج آئے اور ایماندار لوگوں کی حکومت قائم کرے۔ اس کا مطلب ہوا وہ موجودہ حکومت کو کرپٹ سمجھتے ہیں جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں۔

ایک طرف وہ کہتے ہیں سپریم کورٹ چیف جسٹس کے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے دوسری طرف وہ چیف جسٹس کو معطل کرنے والی حکومت کا حصہ تھے اور ان کی پارٹی نے معطل چیف جسٹس کے کراچی کے دورے کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا صدر زرداری سے ناراضگی پہلے تھی اور نہ اب ہے مگر دوسری طرف وہ اپنے راضی دوست کی حکومت کو کرپٹ کہتے ہیں اور انہیں ہٹانے کیلیے فوج کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی دوستی ہے؟

ایک طرف انہوں نے کہا وہ ایسا نظام لائیں گے کہ کسی چینل کو بند نہیں کیا جا سکے گا دوسری طرف معطل چیف جسٹس کے دورے کے دوران ان کی ایم کیو ایم نے جیو ٹی وی کا محاصرہ کیا اور اس کی بلڈنگ کو نقصان پہنچایا۔

وہ کہتے ہیں برطانوی پاسپورٹ ان کی مجبوری تھی مگر وہ یہ توجانتے ہوں گے کہ برطانوی پاسپورٹ کے بغیر بھی وہ جتنا عرصہ چاہتے برطانیہ میں رہ سکتے تھے۔

وہ کہتے ہیں میرے پاس دولت، فوج، جاگیر یا اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے مگر عوام اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ وہ سمجھ نہ سکیں کہ ان کے پاس کیا ہے۔ جب امریکی سفارتکار ان سے ملتا ہے اور وہ برطانوی شہری ہیں تو سب جانتے ہیں کہ ان کے پاس کیا ہے۔

انہوں نے کہا اگر حکومت انہیں مل گئی تو کرپٹ لوگوں کو الٹا لٹکا دیں گے مگر دوسری طرف ان میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں کی حکومت سے علیحدگی اختیار کر سکیں۔

سوچنے والی یہ بات ہے کہ جب وہ بار بار کرپٹ لوگوں کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کا اشارہ حکومت میں شامل کن کرپٹ سیاستدانوں کی طرف ہے؟

ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ اگر مارشل لا آتا بھی ہے تو وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے دوسری طرف وہ جنرل بشرف جیسے فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت میں شامل  رہے۔ ان کی موقع پرستی کی انتہا دیکھیے جونہی بشرف کا بستر گول ہونا شروع ہوا انہوں چوہدریوں جیسے کرپٹ سیاستدانوں کی طرح پلٹا کھایا اور پی پی پی کی حکومت میں شامل ہو گئے۔ یہ وہی سیاسی پارٹی ہے جس کی لیڈرشپ کو ان کے محسن جنرل بشرف نے ملک بدر اور جیل بند کیے رکھا۔

اچھا بھلا انٹرویو جا رہا تھا کہ آخر میں الطاف حسین نے راگ الاپنا شروع کر دیا اور اختتام کو عجیب رنگ دے دیا۔

چپکے چپکے رات کو تیرا باہر آنا یاد ہے

ہم کو اب تک تیرا برقعے میں آنا یاد ہے

لگتا ہے یہ اشارہ مولانا عبدالعزیز کی طرف ہے اور اس اشارے میں مسلمان علما پر تنقید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نوٹ: تبصرہ نگاروں سے صرف اتنی امید  ہے کہ وہ براہ مہربانی دوسروں کی غلطیوں کو جواز بنا کر الطاف حسین کی غلطیوں کو چھپانے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ وہ ہمارے اٹھائے نقاط پر ہی اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔