ہم نے جب بھی قمری کلینڈر کے مطابق اپنے تہوار منعقد کرنے کی بات کی آگے سے مسلمانوں نے یہی جواب دیا کہ حدیث کے مطابق ننگی آنکھ سے چاند دیکھنا ضروری ہے۔ مگر جب ہم نے روئت ہلال کے چیئرمین مفتی منیب کو دس گز لمبی دور بین سے چاند ڈھونڈتے دیکھا تو ہمیں مسلمانوں کے ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے والی حدیث یاد آ گئی۔
مفتی صاحب چان دیکھنے کیلیے اگر سائنس کی ایجاد دوربین استعمال ہو سکتی ہے تو پھر سائنس کیمطابق چاند کے گھٹنے بڑھنے کے سائنسی طریقے سے طے شدہ کیلنڈر کو ماننے میں کیا قباحت ہے۔
ہمارے خیال میں تو اگر امت کو متحد کرنے کیلیے اپنی انا کی قربانی بھی دے دی جائے تو بھی یہ کارثواب ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر سارے لوگ سعودی عرب کی تقلید کرتے ہوئے ایک ہی دن سارے مذہبی تہوار منائیں۔ اگر ہم سعودیوں کے کہنے پر حج کر سکتے ہیں تو پھر باقی تہواروں میں ان کی تقلید کیوں نہیں کر سکتے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری مسجد نے سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے روزہ رکھ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس کیلنڈر کو وہ فالو کر رہے ہیں اس کیمطابق تیس شعبان کل تھی اسلیے سوموار کو چاند کی پہلی تھی اور منگل کو پہلا روزہ۔ یہ ویسے اپنی زندگی کا پہلا موقع ہے کہ ہم لوگ سعودیوں سے بھی ایک دن پہلے روزہ رکھ رہے ہیں۔