امریکن کلچر کے عام ہونے سے پہلے تک مونچھ کو پاکستان میں مردانگی کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور شاید اب بھی دیہات میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ اسی لیے تو کہا کرتے تھے کہ “موچھ نئیں نے کچھ نئیں”۔ بینظیر کے شوہر آصف علی زرداری [جو شادی سے پہلے ایک گمنام شخصیت  تھے] نے جہاں بینظیر کیساتھ شادی کی وجہ سے شہرت پائی وہیں ان کی مونچھوں نے بھی ان کی مردانگی کے قصے مشہور کردیے۔

آصف صاحب نے بینظیر کے دور حکومت میں جہاں ایک طرف مال بنایا اور مسٹر ٹین پرسینٹ کے نام سے شہرت پائی وہیں دوسری طرف اپنے سیاسی مخالفین کے دور میں جیل بھی کاٹی۔ آصف زرداری صاحب پاکستان کی تاریخ میں لمبا عرصہ جیل میں رہنے والے چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ ہم نے اسی دور میں اپنی ایک غزل کا شعر ان کیلیے کہا تھا۔

جو عزت ملاۓ خاک میں، جو داغ لگائے پوشاک میں

جتنی جلدی ممکن ہو جاں چھڑاؤ ایسے زرداری سے

شاید یہ شعر بینظر صاحبہ کی نظروں سے ابھی حال ہی میں گزرا ہوگاکیونکہ اس پر عمل کرنے کے اشارے واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ زرداری صاحب پچھلے دوسال سے سیاسی منظر سے غائب ہیں اور وہ اپنی بیگم کیساتھ بھی آج کل نظر نہیں آرہے۔ نہ ہی ان کی سیاسی مصروفیات میڈیا کو نظر آرہی ہیں اور نہ ہی گھریلو مصروفیات۔

زرداری صاحب نے اا سال طویل جیل کاٹی ہے اور جب وہ بناں کسی سزا کے نومبر 2005 میں رہا ہوئے تو وہ ایک دم سیاسی میدان میں اتر آئے اور جلد ہی چوکے چھکے لگانے شروع کردیے۔ اس دوران انہوں نے پارٹی ورکرز کو اکٹھا کرنا شروع کردیا اور لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنانے کا بھی ارادہ کرلیا۔ ابھی ان کی سیاسی اڑان آسمان کو چھو بھی نہ پائی تھی کہ ان کی ڈور کھینچ لی گئ۔ پہلے وہ دبئ گئے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے بھی اپنی بیگم بینظیر کی طرح شاہی آمد کی تیاری شروع کردی۔ اس خواہش نے ان کی امیدوں پر اوس ڈال دی اور ان کی یہ خواہش ج تک پوری نہیں ہوسکی۔

تب سے زرداری صاحب سنا ہے نیویارک میں اپنے دل کا علاج کرارہے ہیں۔ عام طور پر دل کا علاج چار چھ مہینے میں ہوجاتا ہے اور اگر آدمی کی قسمت میں دانا پانی لکھا ہو تو وہ زندہ رہتا ہے ورنہ اپنے خدا کے حضہور پیش ہوجاتا ہے۔ مگر آصف زرداری کے دل کا علاج اڑھائی سال سے جاری ہے اور ابھی تک انہیں یہ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ سیاسی موت مرچکے ہیں یا زندہ ہیں۔

سنا ہے ان کی خود ساختہ ملک بدری بھی نواز شریف ڈیل ہے یعنی حکومت نے انہیں بھی نواز شریف کی طرح ملک بدر کردیا ہوا ہے اور اب وہ بھی بینظیر کی طرح ملک واپس آنے سے گھبرا رہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بیگم ان کی مقبولیت سے خائف ہوگئی ہوں اور مشرف کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنا پر حکومت کو کود ہی مشورہ دیا ہو کہ ان کےشوہر کو ملک بدر کردیا جائے۔

یہ بھی افواہیں ہیں کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان اختلافات پیدا ہوچکے ہیں اور ان میں علیحدگی ہوچکی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بینظیر لندن اور دبئ میں رہ رہی ہیں اور آصف زرداری سینکڑوں میل دور نیویارک میں۔ آج کل زرداری صاحب اپنے ذاتی دوستوں کیساتھ شب و روز گزار رہے ہیں اور میڈیا سے بالکل کٹے ہوئے ہیں۔

یہ بھی افواہ ہے کہ دونوں میاں بیوی میں ناچاکی پی پی پی کے لیڈر امین فہیم کی سازش ہے تاکہ وہ پارٹی کی مرکزی قیادت سنبھالے رکھیں۔

جس طرح آصف زردای نے اپنی بیگم کیلیے گیارہ سالہ جیل کاٹی، ہمیں امید نہیں تھی کہ ان کی بیگم ان کیساتھ اسلیے بیوفائی کرجائے گی کہ وہ ان کی لیڈرشپ کیلیے خطرہ بنتے جارہے تھے۔ عام طور پر تو میاں بیوی میں کوئی بھی اگر کچھ گھر لے کر آئے تو یہی کہا جاتا ہے کہ مال گھر ہی آیا ہے مگر سیاست ایک ایسا کتا کھیل ہے جس میں اپنی فیملی تک کی قربانی دینے سے لوگ نہیں کتراتے۔ شاید ایسے ہی لوگوں کو اس بلی سے تشبیہ دی جاتی ہے جس نے آگ سے بچنے کیلیے اپنے بچے اپنے پاؤں کے نیچے رکھ لیے تھے۔

بینظر ہمارے معاشرے کی ایک پرانی روایت کو نظر انداز کررہی ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ اپنا اگر مارے گا تو سائے میں ہی رکھے گا۔ بینظیر صاحبہ کو چاہیے کہ ذاتی خودغرضی کے خول سے باہر آئیں اور اپنے شوہر کو سیاست کرنے دیں۔ اگر ان کے شوہر اپنی کارکردگی کی بنا پر بینظیر کی جگہ خدانخواستہ وزیر اعظم بن گئے تو بھی حکومت تو ان کے گھر میں ہی رہے گی۔ مگر لگتا ہے دونوں میاں بیوی کے تعلقات اب اس حد تک بگڑ چکے ہیں یا دشمنوں نے بگاڑ دیے ہیں کہ اب واپسی کی راہ نظر نہیں آرہی۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ہر کوئی اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر رہا ہے اور کسی کو احساس نہیں ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی کے درمیان صلح کروادے۔ میڈیا بھی خاموشی اختیار کیے بیٹھا ہے اور زرداری صاحب کی موجودگی کی کوئی خبر نہیں دے رہا۔

واہ رے بے بسی کہاں ایک وزیر اعظم کا شوہر جو سنا ہے حکومت کے دوران بھی اپنی وزیر اعظم بیگم کی پٹائی کردیا کرتا تھا اور جس کے اشارے پر دھواں دینے والی فیکٹریاں تب تک بند رہتی تھیں جب تک ان کے سگاروں کا بندوبست نہیں کر دیا جاتا تھا۔ کہاں اب نیویارک جیسے مصروف شہر میں تنہا زندگی۔ بیوی بچوں سے دور، سیاست سے کنارہ کشی اور پبلک لائف سے لاتعلقی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر آصف زرداری صاحب کی مونچھیں جھک گئی ہیں تو ضرور کوئی خاص بات ہے۔ کیونکہ جس شخص کی مونچھیں گیارہ  سالہ جیل نہیں جھکا سکی اس کی مونچھیں جھکنے کی وجہ صرف اور صرف اپنے خاندان کیلیے ذاتی قربانی ہی ہوسکتی ہے۔

زرداری صاحب بیشک سیاسی موت مار دیے جائیں مگر ان کا ایک ریکارڈ شاید توڑنا مشکل ہو۔ ان کی بیگم نے وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کے بچے پیدا کیے جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ مسٹر تیں پرسینٹ کی مشہوری کا ریکارڈ بھی شاید انہی کے ساتھ چپکا رہے کیونکہ نہ  ہی ان سے پہلے اور نہ ہی ان کے بعد آج تک کسی نے اس طرح کھلے عام کمیشن لیا ہے۔ موجودہ حکومت کی مثال ہمارے سامنے ہیں اربوں روپے لوگوں کے پیٹوں میں چلے گئے مگر کسی نے آج تک اپنا پھولا ہوا پیٹ نہیں دکھایا۔