لال مسجد کے واقعے کے بعد لگتا ہے قاضی صاحب اپنے ضمیر کے ساتھ لڑی جانے والی طویل جنگ ہار گئے ہیں اور انہوں نے آخرکار قومی اسمبلی سے استعفٰی دے کر اپنی تمنا پوری کرلی ہے جو وہ صدر مشرف کے وردی اتارنے کے وعدے سے مکر جانے کے بعد اب تک التوا میں ڈالے بیٹھے تھے۔

قاضی صاحب نے صدر مشرف کےکئ اقدامات کے خلاف قومی اسمبلی سے استعفٰی دینے کی کئ بار کوشش کی مگر کئ مصلحتیں ان کے آڑے آتی رہیں۔ کبھی خود ان کی جماعت نے ایسا کرنے سے روکے رکھا اور کبھی ایم ایم اے کے اتحاد نے جس کے وہ صدر بھی ہیں

ہمارے خیال میں قاضی صاحب کو استعفٰی اگر دینا ہی تھا تو اس وقت دینا چاہیے تھا جب جنرل مشرف وردی اتارنے کے وعدے سے مکر گئے تھے۔ اس کے بعد قاضی صاحب کو استعفٰی تب دے دینا چاہیے تھا جب جنرل مشرف نے اکبر بگتی کو ختم کیا۔ اس کے بعد سب سے بڑا موقع قاضی صاحب کیلیے تب تھا جب اسمبلی سے جقوق نسواں بل پاس ہوا اور انہوں نے بل پاس ہونے کی صورت میں استعفٰی دینے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ اس وعدہ خلافی کے بعد قاضی صاحب بھی جنرل مشرف کی وعدہ خلافوں کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ قاضی صاحب باجوڑ اور شمالی وزیرستان میں اتحادیوں کی بمباری کے واقعات پر بھی استعفٰی دے سکتے تھے۔  اس کے بعد قاضی صاحب کو تب استعفٰی دینا چاہیے تھا جب کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر قتل و غارت ہوا۔

قاضی صاحب سمیت تمام حزب اختلاف احتجاجی جواز کا ایک موقع ہمیشہ مس کرتی رہی ہے اور کررہی ہے اور یہ جواز ہے مہنگائی کا جس کی چکی میں پاکستان کے ہر کونے میں بسنے والے پس رہے ہیں۔ اگر آج قاضي صاحب مہنگائی کے ایشو پر استعفٰی دیتے تو وہ عوام کی نظروں میں زیادہ اہمیت رکھتا۔ حزب اختلاف اگر حکومت فرینڈلی نہ ہوتی اور آج بھی مہنگائی کے ایک ایشو پر اٹھ کھڑي ہو تو وہ موجودہ حکومت کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔ یہی طریقہ بھٹو نے اپنایا تھا اور یہی طریقہ اب بھی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

قاضی صاحب نے استعفٰی دینے میں بہت دیر کردی۔ اگر وہ سمجھتے تھے کہ قومی اسمبلی ایک ربر سٹیمپ ہے اور ان کا اسمبلی میں بیٹھنا بیکار ہے تو وہ مولانا طاہر القادری کی طرح شروع میں ہی استعفٰی دے کر ان کی طرح دعوت و تبلیغ میں مصروف ہو جاتے۔

 قاضی صاحب نے استعفٰی دینے میں بہت دیر کردی اور اس طرح اپنے اوپر وعدہ خلافی اور حکومت کی بی ٹیم ہونےکا اپنے اوپر لگا لیبل اتارنے میں ناکام رہے۔

دوسری بات جو سب سے خطرناک ہے وہ ایک سیاسی اتحاد کے صدر کا انفرادی طور پر احتجاج کرنے کا لاحاصل انداز ہے۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہل دفعہ ہوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے صدر نے انفرادی احتجاج کا طریقہ اختیار کیا اور وہ نہ تو سیاسی جماعت کے صدارت سے الگ ہوا اور نہ ہی سیاسی جماعت کی رکنیت ترک کی۔ قاضی صاحب کے اس انفرادی احتجاج کا کوئی تک نہیں بنتا اور یہ احتجاج اسی طرح بیکار ہے جس طرح سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے انفرادی کرداروں کی معراج کی مثالیں دیتے اکثر لوگ نہیں تھکتے مگر ان کے انفرادی افعال نے ملک کوکچھ نہیں دیا۔ جنرل ضیا کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پانچ وقت کے نمازی تھے مگر ملک کی بہتری کیلیے ان کی نمازیں کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکیں۔ اسی طرح اگر دوسرے ڈکٹیٹروں کی انفرادی خوبیاں بیان کی جائیں تو یہ صرف سادہ دل لوگوں کو بیوقوف بنانے کے انداز کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قاضی صاحب نے قومی اسمبلی سے انفرادی اندازمیں استعفٰی دے کر اپنی جماعت اور ایم ایم اے کی لیڈری کا اختیار کھو دیا ہے۔ اگر وہ اتنے بے بس ہیں کہ اپنے انفرادی فیصلے کو جماعت پر لاگو نہیں کرسکتے یا جماعت کے لوگوں کو اس پر قائل نہیں کر سکتے تو پھر انہیں اب ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ قاضی صاحب کی اس بات میں ایک چھٹانک بھی وزن نہیں ہے کہ انہوں نے انفرادی فیصلہ کیا ہے اور ان کی جماعت اور ایم ایم اے کے باقی ممبران اسمبلی میں بدستور بیٹھے رہیں گے۔ پتہ نہیں قاضی صاحب اپنے اس انفرادی عمل سے کونسے مقاصد حاصل کریں گے جو وہ اب تک حاصل نہیں کرپائے۔ ہماری نظرمیں تو قاضی صاحب کا یہ فعل ایک بچگانہ فعل سے زیادہ کچھ نہیں۔

جیسا کہ ہم بار بار کہ چکے ہیں کہ اسمبلیوں سے حزب اختلاف کے استعفے اگر جنرل صاحب کے انہی اسمبلیوں سے دوبارہ انتخاب کو نہ رو سکے تو پھر ان استعفوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ حزب اختلاف یہ بات بھول جائے کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دے کر حکومت کو احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی سے مرعوب کرسکے گی اور یہ بھی یاد رکھے کہ عوام بھی ان کی حمایت میں شاید سڑکوں پر نہ نکل سکے۔ اسلیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ قاضی صاحب کی طرح اسمبلیوں سے استعفے دے کر منظر سے ہٹ جانے کی بجائے اسمبلیوں میں بیٹھ کر جنرل مشرف کی دوبارہ صدارت کی کوشش کو اسمبلیوں کے اجلاسوں میں رکاوٹ ڈال کر ناکام بنایا جائے۔