خودکش حملہ آور اتنے آزاد ہوچکے ہیں کہ ان کیلیے اب حساس اداروں کی بسوں میں گھسنا یا بم رکھنا کوئی مشکل نہیں رہا۔ کل راولپنڈی ميں ایک دفاعی ادارے کی بس میں اور پھر آر آے بازار یعنی چھاؤنی میں دھماکوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت خودکش حملہ آوروں کے آگے بے بس ہے۔ حکمران پہلے ہی اس بات کا اعتراف بار بار کرچکے ہیں۔

ہمارے خیال میں خودکش حملہ آوروں کو روکا جاسکتا ہے اور اس کا آسان اور مکمل حل یہ ہے کہ ان حملوں کی سب سے پہلے وجوہ معلوم کی جائیں۔ بات سیدھی سی ہے اگر آپ کسی کے گھر کو آگ لگائیں گے تو وہ آپ کے گھر کو آگ لگائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ آگ لگانے کا کام آپ کریں اور اس کے بدلے میں آپ کے گھر کی آگ میں آپ کے معصوم بچے جھلس جائیں۔

دہشت گردی کے واقعات پاکستان میں تب سے ہورہے ہیں جب سے پاکستان نے افغانستان میں روسی افواج کیخلاف مزاحمت میں جہادیوں کا ساتھ دینا شروع کیا۔ ضیاء دور میں پاکستان کے کونے کونے میں بم دھماکے ہوئے اور جونہی افغانستان سے روسیوں کو شکست ہوئی یہ بم دھماکے ختم ہوگئے۔ اس کے بعد سکھوں کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔  اس دوران پھر دہشت گردی کےواقعات شروع ہوگئے۔ ان واقعات میں کمی تب آئی جب بینظیر نے سکھوں کی تحریک سے نہ صرف علیحدگی اختیار کرلی بلکہ کہتےہیں بھارت کو سکھ مزاحمت کاروں کی فہرست بھی مہیا کردی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی ایک اور لہر تب آئی جب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چلی اور پاکستان نے اس کی دامے درمے بھرپور حمایت شروع کردی۔ یہ تحریک ابھی جاری تھی کہ نو گیارہ کے بعد افغانستان پر اتحادیوں نے چڑھائی کردی۔  طالبان کی حکومت جونہی ختم ہوئی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات دوبارہ شروع ہوگئے۔ ان واقعات نے زور تب پکڑا جب بلوچستان میں حکومت نے بگٹی سے ٹکر لے لی اوراتحادیوں کے کہنے پر وزیرستان میں قبائلیوں سے جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ کو مذہبی انتہاپسندی اور بنیاد پرستی ختم کرنے کا نام دیا گیا۔

موجودہ حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ اس نے اتحادیوں کے کہنے پر اور انہی کی امداد سے اپنے ہی لوگوں کیخلاف انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کی بنیاد پر جنگ چھیڑ دی۔ دوسری طرف اتحادیوں نے اپنے ملکوں میں آباد بنیادپرست مسلمانوں کیخلاف جنگ نہیں چھیڑی بلکہ انہیں یقین دلایا کہ ان کی جنگ اسلام کیخلاف نہیں بلکہ چند عناصر کيخلاف ہے۔ 

قبائلی وہ لوگ ہیں جن کو نہ تو برطانیہ فتح کرسکا اور نہ ہی قائداعظم نے فوج کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کی بلکہ دونوں نے قبائلیوں کے اپنے اپنے علاقوں میں جرگے قائم کرکے اتنظام چلانے کا اختیار دے دیا۔ لیکن موجودہ حکومت جو خود کو قائد کی مسلم لیگ کہتی ہے نے اپنے ہی قائد کےاصول کو پس پشت ڈال کر قبائلی علاقوں میں فوج بھیج کر تمام پاکستانیوں کو غیر محفوظ کردیا۔

خود کش حملوں سے بچنے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے قائداعظم کے اقدامات کی پیروی کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلانا۔ اگر آج حکومت فوج واپس بلانے کا اعلان کردے تو خود کش دھماکے کم ہوسکتے ہیں۔ حکومت بیسیويں صدی ميں رہتے ہوئے ابھی تک اتنا بھی نہیں سمجھ پائی کہ مسائل کا حل بندوق کی گولی کی بجائے میز پر ڈھونڈنے میں ہی سب کی آفیت ہے۔ اگر حکومت قبائلی علاقوں میں قبائلیوں کو انتہاپسند کہ کر قتل کررہی ہے تو اس کے بدلے اپنا جانی نقصان بھی کررہی ہے اور یہ سودا کسی بھی حال میں فائدے کا نہیں ہے۔

ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر آج جنرل مشرف مستعفی ہوجائیں اور ان کے جانشین قبائلی علاقوں سے پاکستانی افواج واپس بلا لیں تو خود کش حملے ختم ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس یقین کی وجہ حکمرانوں کی خود غرضی ہے۔ انتہا پسندی اور بنیادپرستی کی جنگ میں بڑے بڑے مہرے عام مسلمانوں کی قربانی دے کر مال بنا رہے ہیں اور یہ سودا ان کیلیے گھاٹے کا نہیں ہے۔ اس سے بہتر مال بنانے کا موقع انہیں پھر نہیں ملے گا اور ویسے بھی جنرل اپنے سپاہی کی موت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک صرف ایک سپاہی کو نشان حیدر ملا ہے۔ حکومت چاہے جتنا مرضی شور مچاتی رہے کہ خود کش حملوں کا کوئی علاج نہیں ہے ہم ماننے کوتیار نہیں ہیں۔ یہ حملے اس دن کے بعد نہیں ہوں گے جب حکمران ذاتی سوچ چھوڑ کر قومی سوچ اپنا لیں گے اور ملکی مفاد کے فیصلے اکیلے نہیں بلکہ پاکستانیوں کو اعتماد میں لے کر کریں گے۔