ایگزیکٹ سکینڈل نے فی الحال تمام موجودہ عوامی مسائل کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ طرح طرح کے الزامات روزانہ ایگزیکٹ پر لگ رہے ہیں۔ کبھی ٹیکس کی چوری، کبھی غیرقانونی مشینری کی درآمد، کبھی ان کے بول چینل کی عیاشیاں اور کبھی ملازمین کے سیلری پیکیجز کا زکر ہو رہا ہے۔
مسئلہ سیدھا سادھا ہے یعنی اپنے آقا کو خوش کرنے کیلیے حکومت کسی کو بھی قربانی کا بکرا بنا سکتی ہے۔ وگرنہ جو ایگزیکٹ کے جرائم کی فہرست تیار ہو رہی ہے ان جرائم سے دوسرے پاکستانی کاروباری ادارے بھی مبرا نہیں ہوں گے۔ یقین نہ آئے تو کسی دوسرے ادارے پر بھی ایف آئی اے والے چھاپا مار کر دیکھ لیں۔ اگر اس سے بھی بڑی جرائم کی لسٹ بنانی ہو تو کسی حکومتی سربراہ کے ذاتی کاروبار پر چھاپہ ماریں اور دیکھیں کہ ان کے اندر سے کتنا گند برآمد ہوتا ہے۔
مگر چونکہ انصاف مجرمین کے ہاتھ میں ہے اسلیے غریب اور لاوارث کا احتساب تو ہو گا مگر طاقتور کا احتساب کبھی نہیں ہو گا۔
جتنی ناجائز دولت ایگزیکٹ نے اکٹھی کی ہو گی اس سے کئی گناہ زیادہ صدر زرداری اور ان کے حواریوں نے لوٹی ہو گی مگر ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا کیونکہ ہر کسی کو اپنا ذاتی مفاد درکار ہے۔