انتخابات سر پر ہیں اور ہم نے ابھی تک نہیں سنا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور کی تیاری شروع کی ہو۔ نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے ہونے والے انتخابات کی تیاری شروع کی ہے اور نہ ہی انتخابات جیتنے کیلیے غوروفکر۔

اس موقع پر ہم ایک بار پھرسیاسی پارٹیوں کو ان کے منشور مرتب کرنے میں بلامعاوضہ مدد کرنے نکلے ہیں۔ ہم یہ بات شرطیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی سیاسی پارٹي بھٹو کی طرح اپنا سلوگن روٹی، کپڑا اور مکان بنا لے اور عوام کو ثابت کرے کہ موجودہ حالات میں بھی اگر حکومت چاہے تو مہنگائی کو کنڑول کرسکتی ہے تو وہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

 یہ بات تو سب سیاستدان مانتے ہیں کہ عوام کو ہڑتالوں اور جلوسوں سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ وہ روزی روٹی کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنی دیہاڑی ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

میٹرو بلاگ پر اے فار ایپل نے مہنگائی چارٹ شائع کیا ہے جسے دیکھ کر آپ بھی قائل ہوجائیں گے کہ ابھی بھی مہنگائی کو اگلے انتخابات میں ایشو بنایا جاسکتا ہے۔ اس چارٹ میں مہنگائی کیساتھ ساتھ حکومت کے شاہی اخراجات کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس جائزے کو دیکھ کر سیاسی پارٹیاں اپنے منشور میں سادگی کو بھی اپنانے کا وعدہ کرکے ووٹ مانگ سکتی ہیں۔

 اس وقت سیاسی پارٹیوں کیلیے سب سے مشکل مرحلہ اپنے اعتماد کو بھی بحال کرانا ہے کیونکہ اس وقت عام آدمی کی یہ سوچ ہے کہ کوئی بھی حکومت میں آئے اس کے حالات جوں کے توں رہیں گے۔ ایک طرف یہ سوچ اگر مجموعی طور پر موجودہ سیٹ اپ پر مایوسی کا ظہار ہے تو دوسری طرف خود اعمتادی کی بھی نشانی ہے یعنی عام آدمی اب سیاستدانوں پر امید لگانے کی بجائے خود پر زیادہ اعتماد کرنے لگا ہے اور اس کا خیال پکا ہوتا جارہا ہے کہ بقول علامہ اقبال کے،

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 دراصل اس شعر کا موضوع علامہ اقبال نے قرآن کی آیت سے اخذ کیا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ قرآن پاک کے اصولوں سے انحراف ہی ہے۔

 دیکھتے ہیں کہ کونسی سیاسی پارٹی مہنگائی اور سادگی کے نعروں کو سب سے پہلے اپناتی ہے اور عوام کو قائل کرتی ہے۔