کل کاشف کیساتھ انٹرویو میں وزیر مملکت برائے ریلوے شیخ رشید سگار اور کافی پیتے نظر آئے۔ یہ بات تو سب کو  معلوم ہے کہ شیخ رشید صاحب پیدائشی کنوارے ہیں، ان کے پاس ایک HUMMERگاڑی ہے اور وہ درآمد شدہ سگار پینے کے باوجود اپنے دل میں غریبوں کیلیے ہمدردی کا گوشہ رکھتے ہیں لیکن یہ بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ وہ ٹی وی پر آکر سگار پی کر سگریٹ نوشی کی اس طرح اشتہاربازی کریں گے۔

پتہ نہیں اس سگارنوشی سے شیخ صاحب کیا ثابت کرنا چاہتے تھے۔ سگارنوشی اس سے قبل امارت اور رکھ رکھاؤ کی نشانی سمجھی جاتی رہی ہے۔ سگارنوش حضرات برطانوی راج کے پٹھو بھی ہوا کرتے تھے جنہیں لاٹ صاحب کہا جاتا تھا۔ انہی سگارنوشوں کو برطانوی تاج کیساتھ وفا کے سلسلےمیں جاگیریں اور حویلیاں الاٹ کی گئیں۔ سگار پینے والے اپنے آپ کو مغرب کا دلدادہ قرار دیتے ہیں اور خود کو دوسروں سے زیادہ پڑھا لکھا اور ماڈرن سمجھتے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں کالم نگار عباس اطہر نے اے پی سی میں شرکت کیلیے لندن جانے کا احوال بیان کیا تھا اور اس میں انہوں نے یہی شکایت کی تھی کہ جہاز میں بیٹھنے سے لیکر ہوٹل کے کمرے تک انہیں کہیں بھی سگریٹ پینے کی جگہ نہیں ملی کیونکہ امریکہ اور انگلینڈ سمیت سارے یورپ نے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ٹی وی پر تمباکو کمپنیوں کے اشتہارات کم ہوتے جارہے ہیں اور ان کو سپورٹس کی سپانسرشپ بھی نہیں دی جارہی۔ آپ یورپ میں گھوم پھر کر دیکھ لیں آپ کو سیکنڈ ہینڈ سموکنگ سے بچنے کیلے سخت قوانین کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یورپ میں سگریٹ کی بدبو سے پاک گھروں اور گاڑیوں کی زیادہ قیمت ہوتی ہے۔ ہم خود اپنے گھر میں کسی کو سگریٹ پینے کی اجازت نہیں دیتے اور سگریٹ کے عادی مہمان کو سخت سردی میں بھی باہر جاکر سگریٹ پینا پڑتا ہے۔

ایک ہمارا ملک ہے کہ آپ کے عزیزواقارب گھر میں سگریٹ پیتے ہیں اور پھر سگریٹ سلگانے سےپہلے اجازت مانگنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمیں اپنے پچھلے پاکستان کے ٹور میں ان سگریٹ پینے والوں سے سخت الرجی رہی اور ہمیں کئی دفعہ انہیں سگریٹ بجھانے کی گزارش کرنا پڑی۔

اسی طرح چیف جسٹس کی بحالی کے فیصلے کے دن کی مشہور حقوق انسانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی فوٹو بھیasimajahangirwithcigarettes.jpg سگریٹ کا کش لیتے ہوئے ایکسپریس اخبار نے چھاپ کر کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا بلکہ اس طرح سگریٹ نوشی کی نوجوان نسل خاص طور پر وکلا کو ترغیب دی ہے۔

آج جب شخ صاحب کو ٹی وی سگار کا کش لگاتے اور دھواں کاشف کے منہ پر چھوڑتے دیکھا تو سمجھ میں آیا کہ عام آدمی کیوں اپنے ساتھی سے سگریٹ پینے سے اجازت نہیں لیتا۔

شیخ صاحب اتنے سمجھدار ہیں کہ ریلوے کی وزارت کے باوجود وزیراطلاعات کے فرائض انجام دے رہے ہیں مگر سگار نوشی ٹی وی پر کرنے کی ان کی منطق سمجھ نہیں آسکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شیخ صاحب ریلوے کے سفر دوران سگریٹ نوشی پر پابندی لگاتے چہ جائیکہ وہ سگریٹ نوشی کی اشتہار بازی ٹی وی پر سرعام کرتے پھریں۔

شیخ صاحب سے ہماری یہی گزارش ہے کہ وہ سگار نوشی ٹی وی پر کرنا ترک کردیں تاکہ ہماری نوجوان نسل کی سگریٹ پینے کی حوصلہ افزائی نہ ہواور ہماری قوم سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکے۔